اردو غزل پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اردو غزل پر اعتراضات اور ان کے جوابات

جب سے اردو میں تنقید کی با قاعدہ شروعات ہوئی اسی وقت سے غزل پر طرح طرح کے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے ۔ ان مختصر صفحات میں ان سب کا دہرانا تو محال ہے لیکن ان میں سے خاص خاص اعتراضات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بتانے کی بھی کوشش کی جائے گی کہ ان میں سے کون کون سے اعتراض حق بجانب ہیں۔

غزل پر پہلا اعتراض

غزل پر پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ اس کا دامن تنگ ہے عشق و عاشقی کے سوا یہاں دھراہی کیا ہے اور یہ عشق بھی فرضی ہے عشق کی بات وہ شاعر بھی کرتا ہے جس نے زندگی میں کبھی عشق کیا ہی نہیں۔

اس اعتراض کے جواب میں کئی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جس زمانے میں حالی نے یہ اعتراض کیا اسی زمانے میں بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی سے غالب جنہیں حالی اپنا استناد تسلیم کرتے ہیں، اردو غزل کے موضوعات کو وسعت دے رہے تھے ۔ وہ حیات و کائنات کے مسائل پر غور کرتے تھے اورانہیں اپنے شعروں میں جگہ دیتے تھے ۔

دوسری یہ کہ عشق بھی زندگی کا ایک جزو ہے بلکہ سب سے اہم جزو اس لیے عشق کو نظر اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ تیسری یہ کہ عشق کا دائرہ بہت وسیع ہے ہے۔ اس اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً خدا سے عشق ، ماں باپ سے عشق ، اولاد سے عشق وطن سے عشق کسی اہم مقصد سے عشق و غیره و غیرہ ۔

چوتھی اور نہایت اہم بات یہ کہ عشق کے پردے میں زندگی کی بے شمار حقیقتوں کا بیان کیا جا سکتا ہےیعنی علامتیں تو وہی رہتی ہیں جو عشقیہ شاعری میں استعمال ہوتی رہیں مگر ان کا مفہوم بدلتا رہتا ہے ۔ مثلاًلفظ محجوب کے معنی کہیں خدا ہوتے ہیں کہیں معشوق مجازی کہیں وطن کہیں قوم اور کہیں مقصد۔

یہ تو با لکل غلط کہا گیا کہ جس نے عشق نہ کیا ہو اسے اپنے شعروں میں عشق و عاشقی کا ذکر کرنے اور معاملات عشق کو پیش کرنے کا کوئی حق نہیں، فنکار اور خاص طور پر شاعر کے پاس تخیل کی ایسی علامات ہوتی ہے کہ جو کچھ اس نے اصلیت میں دیکھا نہیں تخیل کی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے جو کچھ شاعر کے دل پر

بیتی نہیں وہ تخیل کی بدولت اس کے دل پر بیت جاتی ہے۔ سور و اس پیدائیشی نابینا تھے جو تخیل کی کرشمہ سامانیوں سے ناواقف ہے وہ کیسے یقین کر سکے گا کہ ان کی شاعری میں جو تصویریں بکھری ہوئی ہیں وہ انھوں نے دیکھ کر نہیں محض سن کر بنائی ہیں شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں میں اٹلی کی ایسی جیتی جاگتی تصویریں کھینی ہیں جنہیں دیکھ کر لوگوں کو کہنا پڑا کہ ہمارا شاعر ضرور اٹلی گیا ہوگا۔

شیکسپیئر نے طبقہ نسواں کی تصویر کشی بھی نہایت کامیابی کے ساتھ کی ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ زندگی میں کبھی عورت بھی رہا ہوگا۔

بات دراصل یہ ہے کہ شاعر نے جو کچھ بچشم خود دیکھا ہیں اور جو کچھ اس کے دل پر بیتا نہیں تخیل کے طفیل وہ اس طرح اس کے پیش نظر ہو جاتا ہے اور اس کے دل پر اس طرح بیت جاتا ہے کہ وہ ہمیں شاعر کا اصلی اور واقعی تجربہ معلوم ہوتا ہے۔ غرض یہ آخری اعتراض تو بالکل بے وزن ہے۔

غزل پر دوسرا اعتراض

اردو غزل پر حالی کا دوسرا اعتراض تکرار مضامین کا ہے۔ انھیں شکایت ہے کہ چند مضمون ہیں جنہیں غزل میں لفظوں کے معمولی الٹ پھیر کے ساتھ بار بار پیش کیا جاتا ہے ۔

انھوں نے ایک دیوان کی مثال دی ہے جس میں چاک گریباں کا مضمون ڈیڑھ سو بار ادا ہوا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ہم نے بھی چودہ برس شاعری کی پھر جب آنکھ سے پٹی کھلی تو معلوم ہوا کہ کوٹھی کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گردش کرتے رہے ۔ اس اعتراض کے جواب میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں ایک تو یہ کہ کسی مضمون کو کئی دل نشیں انداز میں ادا کرنا عیب نہیں ہنر ہے اور اس سے شاعر کے کمالِ فن کا پتا چلتا ہے ۔

میر انیس نے اپنی اسی خصوصیت پر فخر کیا ہے ۔ فرماتے ہیں۔

گل دستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

حضرت علی نے بجا ارشاد فرمایا کہ باتیں دہرائی نہ جایا کرتیں تو کبھی کی ختم ہو چکی ہوتیں۔

غزل پر تیسرا اعتراض

غزل کی جو خصوصیت سب سے زیادہ اعتراض کا نشانہ بنی وہ ہے اس کی ریزه کاری ریزه کاری سے مراد یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے یعنی غزل کے ہر شعر میں ایک مکمل بات کہہ دی جاتی ہے۔ ایک غزل کے مختلف شعروں میں کوئی ربط نہیں ہوتا ۔ ہو سکتا ہے

ایک شعر میں وصال کا ذکر ہو تو دوسرے میں ہجر کا اور تیسرے میں ان دونوں سے مختلف۔ غزل کی یہ وہ خصوصیت ہے جس پر سب سے زیادہ نکتہ چینی کی گئی۔ہمارے نزدیک یہ غزل کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ ہر شعر میں ایک مکمل تجربہ پیش کردیا جاتا ہے

دو مصرعوں میں کوئی پورا تجربہ اسی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ اشارے کنا ہے سے کام لیاجائے۔ جب کوئی بات اشارے میں کہی جاتی ہے تو اس میں عموماً ابہام پیدا ہو جاتا ہے اور ابہام سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ ہر شعر میں ایک الگ منفرد تجربہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب کوئی اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے تو اس شعر کو دہرا دیتا ہے۔ چنانچہ غزل کے بے شمار اشعار ہیں جو ضرب المثل بن گئے اور گفتگو کے دوران خوب استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ شعر دل کی بات اداکرنے میں مددگار ہوتے ہیں اور گفتگو کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کى غزل گوئی کے امتيازى پہلو pdf

غزل پر چوتھا اعتراض

غزل پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ اس میں جو معشوق پیش کیا جاتا ہے وہ مرد یعنی لڑکا ہے ۔اور کبھی کبھی تو اس کی داڑھی مونچھ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ شعرحسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہاداڑھی مونچھ کا ذکر تو واقعی نامناسب تھا اور رفتہ رفتہ ختم ہوگیا۔ مگر تذکیر کا صیغہ باقی رہا مثلاً ”

وہ آگئے تو لب بھی ہلایا نہ جاسکا۔

اس کا مقصد ایک تو راز داری ہے اور دوسری یہ کہ یہ نہ معلوم ہو کہ کوئی شخص مرد ہے یا عورت تو مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی کے قدموں کی چاپ سن کر اپنے خادم سے یہ کہتے ہیں کہ دیکھ کون آیا ہے، یہ کبھی نہیں کہتے کہ کون آئی ہے۔ اسی طرح غزل میں زنانہ لباس کے ذکر کو بھی عیب بتایا گیا۔ اس کا رواج بھی ختم ہو گیا۔

غزل کے شاعر کو زیادہ پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ غزل کا ہر مصرع یکساں وزن میں ہوتا ہے۔ قافیے کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ قافیے کی پابندی ہی کچھ کم نہیں۔ شاعر کو ہر شعر قافیے کی رعایت سے کہنا پڑتا ہے کبھی کبھی غزل میں قافیے کے علاوہ ردیف کا اہتمام بھی ہوتا ہے پھر یہ بھی ضروری ہے کہ مطلعے کے دونوں مصرعوں میں قافیہ یا قافیہ و ردیف دونوں کا اہتمام ہو۔ آخری شعر جو مقطع کہلاتا ہے اس میں شاعر کو اپنا تخلص لانا ضروری ہوتا ہے۔

بے شک یہ پابندیاں غزل کو ایک مشکل فن بنا دیتی ہیں۔ ان کے علاوہ یہ پابندی بھی کچھ کم نہیں کہ غزل کا شاعر دو مصرعوں میں اپنی بات مکمل کرنے پر مجبور ہے۔ ان پابندیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا گیا کہ صنف غزل کا مٹا دینا اردو شاعری کے لیے مفید ہو گا ۔ یہ مشورہ درست نہیں۔ اگر کوئی شاعر ن پابندیوں کے با وجود اچھی غزل کہنے کی قدرت رکھتا ہے تو اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں غزل کہنے میں وہ خود تکلیفیں اٹھاتا ہے لیکن ہمیں بہترین شعروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ایک انگریزی نقاد نے درست فرمایا کہ شاعری کا معامر پیڈنگ کا سا ہے ہمیں اس کی لذت سے سروکار رکھنا چاہیے۔ اس کے پیچھے جو محنت ہے اس سے ہمیں کیا لینا کبھی فیرنی کا لطف لیتے وقت ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ اس کے لیے چاول پیستے میں باورچی کو کتنی زحمت اٹھانی پڑی ہوگی ؟ کبھی نہیں بس یہی معاملہ غزل کا ہے۔

جو شاعر غزل کی پابندیوں کو غیرمعمولی جکڑ بندی سمجھتا ہو اس کے لیے مثنوی ہے نظم ہے پھر معری اور آزاد نظم ہے اور اس سے آگے بڑھے تو نثری نظم ہے عرض غزل جیسی لطیف اور دلکش صنف کو قتل کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ غزل کے شاعر کو الٹے چلنا پڑتا ہے۔

مطلب یہ کہ ردیف ( اگر غزل مردف ہے تو پہلے سے طے ہے۔ اس سے پہلے قافیہ ہے۔ پھر قافیے کی رعایت سے دوسرا مصرع پہلے مکمل ہوتا پھر اس پر گرہ لگائی جاتی ہے یعنی پہلا مصرع کہا جاتا ہے۔ پھر دوسرا، اس طرح غزل کہنے کی ترتیب الٹی ہوئی۔) ہے۔

بے شک یہ بات درست ہے لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرا مصرع پہلے اور پہلا مصرع بعد کو کہتا ہے لیکن پڑھنے والے کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا یہی غزلگو کا کمال ہے ۔

دیکھا آپ نے صنف غزل پر کتنے سخت اعتراضات کیے گئے مگر ان کے کیسے مدل جواب موجود ہیں۔ کہتے ہیں ڈان کو ئکزو اپنے نیزے سے پون چکیوں پر حملہ آور ہوتا تھا۔ اُن چکیوں کا تو بال پیکا بھی نہ ہوتا تھا مگر اس کا نیزہ ضرور ٹوٹ جاتا تھا۔ ان اعتراضات سے غزل کا تو کچھ بھی نہ بگڑا اور یہ اعتراض ایسی دلیلوں کے ساتھ رد کیے گئے کہ معترضین کو لاچار خاموش ہونا پڑا۔

ڈاکٹر سنمبل نگار: اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ

مزید یہ بھی پڑھیں: حالی کی غزل میں عاشق کے تصور کی مقصدی کڑیاں pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں