اردو افسانہ پس منظر اور تعریف
موضوعات کی فہرست
اردو افسانے کا پس منظر
انسان کی دلچسپیوں اور لگاؤ کا محور ہمیشہ سے کہانی سننا اور سنانا رہا ہے۔
انسان کو اپنے پورے دن کی تھکن دور کرنے کے لئے ایسے مشغلے کی ضرورت تھی جس سے اس کے ذہن کو تسکین پہنچ سکے اور انسان کو ایسا ماحول مہیا کرے جس سے وہ حقائق کی سختیوں اور تلخیوں سے دو رہ سکے۔
اسی چیز نے انسان کو جنگل و بیابان سے نکل کر لہلاتے کھیتوں تعلق جوڑ دیا اور اس سے انسان کو لطف محسوس ہونے لگا۔
انسان ہمیشہ سے اپنے کارناموں اور روداد کو کہانیوں میں بیان کر کے خوش ہوتا ہے۔ بے شک کہانی دلچسپی کا ذریعہ ہے۔ کہانی دراصل انسانوں کے کارناموں کی روداد ہوتی ہے۔جو حقیقت سے دور تخیل ر اور رومان کی ایک جہانِ تازہ تصویر ہے اور یہی چیز داستان کی بنیاد ہے۔
اردو ادب کی بہت سی اصناف میں کہانی دیگر اجزاء سے مل کر بنی ہے۔ ان تمام اجزاء میں ہر کسی کی اپنی اہمیت ہے اور ارتقاء کے مختلف مراحل ہیں جس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ پھر اٹھارویں صدی کے درمیان میں داستانوں کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔
کہانی میں جس چیز کو ضروری قرار دیا گیا ہے وہ سسپنس ہے لیکن تحریر کرنے والے کے پاس دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور بھی بہت سے وسیلے ہوتے ہیں۔ داستان میں رنگین، حسین و جمیل اور پرشکوہ دنیا کی تشکیل کرتا ہے۔ جن سے وہ قاری کا دل موہ لیتا ہے۔
داستان میں مافوق الفطرت عناصر کے ساتھ تخیل و و تصور ہے جو کہ قاری کے لئے لطف مہیا کرتا ہے۔ رفیع الدین ہاشمی اس کے متعلق لکھتے ہیں:
"کہنے کی چیز کو کہانی کہتے ہیں ۔ قصہ کے معنی بھی کہنا اور بیان کرنے کے ہیں۔ داستان کہانی کی سب سے اولین اور قدیم قسم ہے۔ داستان وہ قصہ کہانی ہے جس کی بنیاد تخیل، رومان اور پڑھنے سے زیادہ کہنے اور سننے کی چیز ہے”۔(۱)
داستان کو کہانی کی پرانی قسم کہا جاتا ہے اور داستان ایک قصہ ہی ہوتا ہے جس میں داستان گو تخیل ، رومان اور مافوق الفطرت جیسے عناصر کے قاری کو سیر کرواتا ہے۔
کیونکہ ان کے بغیر داستان میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنا مشکل ہے۔ ابھی داستان کا دور ختم ہوا تھا کہ کہانی کی ایک نئی صنف وجود میں ٓئی۔ اس طرح کہانی کی روایت نے دوسری طرف رُخ موڑ لیا پھیرا اور یوں اٹھارویں صدی میں یورپ میں ناول کو جگہ ملی۔
انیسویں صدی میں یہ صنف ناول کے نام سے منظرِ عام پر آگئی۔ ناول میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جاتا ہے اور زندگی کے مختلف تجربات اور مشاہدات کو پیش کیا جاتا ہے اس لیے ناول کو داستان کی ترقی یافتہ صورت کہا جا سکتا ہے۔ناول کے بارے میں پروفیسر انور جمال یوں رقمطراز ہیں:
"ناول کے معنی نیا، انوکھا، عجیب اور نمایاں کے ہیں۔ ناول صنفِ نثر ہے اور داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ناول وہ نثری کہانی ہے جس میں کسی خاص مقصد کے تحت زندگی اور اس کے متعلقات کے حقیقتوں کی ترجمانی کی جائے۔ ناول مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد ہوئی اور اب اردو کے نثری ادب میں سب سے بڑا سرمایہ ناول کا ہے۔ ناول داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے”۔ (۲)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہانی نے ارتقاء کی منزلوں سے آشنا ہوئی۔ تو ایک نئی صنف وجود میں آئی جس کو افسانہ کہتے ہیں۔
اردو افسانے کے متعلق جملہ مواد یہاں پڑھیں
اردو افسانے کی تعریف
اردو ادب میں جو بھی صنف متعارف کی جاتی ہے تو اس کی مختلف زاویوں سے تعریف بیان کی جاتی ہیں۔
جیسے جیسے وہ ترقی کے مراحل کرتی ہے تو اس پر نئے تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں اور پھر اس کو ادبی سطح پر ایک درجہ دیا جاتا ہے۔ افسانے کو ناول کے مقابلے میں کم ضمانت والی صنف کہا جاتا ہے۔
کیونکہ اس میں وحدت و تاثر کا اظہار کیا جاتا ہے۔ افسانہ کے واقعات حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ نئے دور کی پیداوار ہے۔
اور دوسری تمام نثری اصناف کی بدولت اسے زیادہ شہرت حاصل ہے۔ مختصر افسانہ زندگی کے کسی واحد پہلو کو پیش کرتا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
"ہر وہ افسانہ جو مختصر ہو، مختصر افسانہ نہیں ہے بلکہ مختصر افسانہ وہ صنف ہے جس کے فن کی اپنی ایک دنیا ہے اور اس دنیا کے اپنے اصول ہیں، اپنی قدریں ہیں، اپنے معیار ہیں، اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ مختصر افسانہ اپنے اصولوں ، قدروں اور معیاروں سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ انہی سے عبارت ہے”۔ (۳)
صنف افسانے کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے افسانہ نگار ایسی کہانی جنم دیتا ہے جو فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس افراتفری کے عالم میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں رہا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مختصر افسانے کی بنیاد رکھی گئی تاکہ انسان کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی کہانی تخلیق کی جائے جس سے اس کو ذہنی تسکین حاصل ہو۔
افسانہ ایک تخلیقی عمل ہے اور اس میں جمالیاتی تجربات بھی شامل ہیں جو انسان کو معنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ خوشی اور تسکین دیتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی یوں رقمطراز ہیں:
"افسانہ ایک مخصوص تخلیقی عمل ہونے کے باوصف ایک جمالیاتی تجربہ aesthetic experienceبھی ہےجو ہمیں معنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ فرحت و انبساط سے بھی مالا مال کرتا ہے”۔ (۴)
افسانہ ایک تخلیقی اور جمالیاتی تجربہ ہے۔ افسانے کی تعریفیں بہت زیادہ ہیں۔ نور اللغات میں افسانے کی تعریف کے بارے میں مولوی نو ر الحسن نیر کاکوروی لکھتے ہیں:
"افسانہ ایک داستان، قصہ، کہانی، سرگزشت ہے”۔ (۵)
افسانہ کہانی کا وہ شکل ہ جو انسانی زندگی کے ایک پہلو کو بیان کرتا ہے۔ اس کی کوئی ایک خاص وقتی کیفیت یا ایک ذہنی الجھن افسانے کا موضوع ہو سکتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی سے لگاو انسان کی ضرورت ہے کیونکہ کہانیاں انسان کے ذہن کو تسکین پہنچاتی ہے اور کہانیوں کا مقصد یہی ہے کہ وہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا سبب بن جائے۔
افسانہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اردو افسانہ نگاری میں اشفاق احمد کا نام ہمیشہ سے بلند ہے۔ اشفاق احمد افسانہ نگاری کی روایت میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو افسانہ نگاری کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔
انھوں نے افسانہ نگاری کو وجاہت بخشی ہے۔ ان کے افسانوں نے فکری و فنی عظمتوں کے نئے در وا کئے ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو اتنا سب کچھ دیا کہ ان کے احسانات کا وزن افسانہ نگاری کی روایت میں ہر سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اشفاق احمد ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اردو زبان سے ٹوٹ کر محبت کی اور ایسے لوگ اب کم یاب ہیں۔
ماخذ: اشفاق احمد کی افسانہ نگاری ایک محبت سو افسانے کے تناظر میں