سفر نامہ آساں نہیں ، ہے کشمکش ذات کا سفر از ولید عبداللّہ

سفر نامہ آساں نہیں ، ہے کشمکش ذات کا سفر
تقدیر ایک ایسی شے ہے جس کے آگے تدبیر بھی اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ انسان، جو کہ اشرف المخلوقات ہے، جس نے بڑے اور طاقتور پہاڑوں، گہرے سمندروں اور پھیلے ہوئے میدانوں کو سر کرنے میں دیر نہ لگائی، لیکن ساتھ ہی اتنا بےبس ہے کہ اپنے ایک سانس پر بھی قدرت نہیں رکھتا ۔ اسے نہیں معلوم کہ یہ نفس سانسیں کب اس سے چھین لی جائیں اور بڑی زمینوں اور سمندروں پر حکومت کرنے والا انسان خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا جائے لیکن اس حقیقت کے باوجود انسان کوشش و جدوجھد کرتا ہے اور پھر وہ دوبادہ اپنی تقریر کے سامنے بے بس ہو جاتا ہےاور اس کا فیصلہ اس کی تقدیرکرتی ہے۔
اگلے لمحے سے ناواقف انسان زندگی بھر اگلے لمحے کے لیے کوششیں کرتاہے اور ہمیشہ مستقبل کو بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ یہ زندگی ہر انسان کے لیے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر بہت ظالم ہے۔ یہ حسرتوں کے بندھن انسان کو بےبس کر دیتے ہیں ۔ ایسی خواہشیں جو شاید لاحاصل ہوں لیکن نہ جانے کیوں وہ ان کے پیچھے بھاگتا ہے اور تقدیر پھر اس کا فیصلہ کرتی ہے ۔ بہت سے لوگوں کی تو خواہشات حسرتیں ہی رہتیں ہیں اور ان کی دردناک بےبسی اس شعر کی ترجمانی کرتی ہیں

                 ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
                 ہاۓ کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

اس عاجز اور بندہ ناچیز نے ہمیشہ صرف ان لوگوں کو زندگی کی کشمکش میں خوش دیکھا ہے جنہوں نے زندگی کی ضروریات کو اپنی خواہشات سے علیحدہ کیے رکھا۔ ہرذات انسانی ضرور بالضرورایک نہ ایک ایسی خواہش رکھتی ہے جو اگر پوری ہو جاۓ تووہ سمجھتا ہے اس کی زندگی مکمل ہو جاۓ گی ۔ ایک عظیم الشان سلطنت کا بادشاہ چاہے گا دوسری سلطنت بھی میری ہو۔ امیر چاہے گا وہ اور دولت بنائے ۔ الغرض خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور پاگل چھوڑ دیا جائے تو انسان چار دن کی زندگی سکون واطمینان سے جی سکتا ہے ورنہ حسرتوں اور خواہشات کے بندھن اس کو روز ماریں گے اور انسان روز جیۓ گا روز مرے گا۔ یہ عاجز بس ایک ہی تمنا چاہتا ہے کہ یہ تمنا کرنے سے آزاد ہو جاۓ جیسے ذہین شاہ تاجی نے کہا تھا:

                 ہوں  یہ تمنا ہے کہ آزاد تمنا ہی ر    
                 دل مایوس کو مانوس تمنا نہ بنا 

اس زندگی سے جنگ تو وہ لوگ لڑتے ہیں،حیات سے موت تک کا سفر تو ان لوگوں کے لیے کھٹن ہے جو اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے ۔ اصل زندگی کی کشمکش سے وہ لڑتے ہیں۔ کسی کے پاس لباس نہیں تو کسی کے پاس کھانا نہیں تو کسی کے رہنے کو گھر نہیں ۔ اس عاجز کی نظر میں یہی لوگ زندگی جی رہے ہیں ۔ ایک درد بھری ، مشکلات و مصائب سے بھر پور اور تکلیفوں سے جکڑے بےیارومدگارانسانوں سے پوچھے کوئی کہ اس زندگی کا مطلب کیا ہے ، اس کو کیسے جیا جات ہے۔ ان کا حیات سفر ورق ورق لہو لہو ہوتا ہے۔

مرنے والے تو خیر ہیں بےبس جینے والے کمال کرتے ہیں ۔ نج رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے ر مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں