کھڑکی بھر چاند مصنف احمد سلیم سلیمی تحریر فرقان احمد

کھڑکی بھر چاند

ابھی مرحوم دکھی صاحب کی کتاب "تصویرِ درد "کے ساتھ لپٹا ہوا تھا ، مطالعےکا رفتار تند و تیز جاری تھا ، اپنے ہدف کو عبور کرنے میں مصروف تھا تو اچانک ناول کی شکل میں ادبی افق پر ایک ستارہ چمکنے لگا ۔

چند سرگوشیوں کے بعد معلوم ہوا کہ ادبی افق پر چمکنے والا یہ ستارہ جادوئ قلم نگاری کے مالک استاد محترم جناب احمد سلیم سلیمی صاحب کا ہے تو دل ہی دل میں عہد کیا کہ بہت جلد ” کھڑکی بھر چاند ” کا مطالعہ کرونگا چونکہ کالج کے دور میں استاد محترم کی دلچسپ اور تخلیقی کتاب "حدیث دل” کا بھی مطالعہ کیا تھا دو سے تین برس بیت جانے کے بعد بھی بار بار” حدیث دل ” کا خاکہ آج بھی دل و دماغ میں اپنی تصویر کشی پیش کررہا ہے۔ آج بھی اس کتاب کے جملے باترتیب میرے زہن میں نقش ہیں ۔

"حدیث دل” میں یاد ماضی پر لکھی گئ ادبی تھیوری اُس وقت میں نے اپنی روزنامچہ ڈائری میں بھی لکھا تھا جسے آج بھی حسب موقع ڈائری کھول کر پڑھتا ہوں ۔ بہر کیف ناول ” کھڑکی بھر چاند ” کا مطالعہ بھی فلحال ہی اپنے اختتام کو جاپہنچا ۔ یہ ناول 352 صفحات پر مشتمل ہے ۔

استاد محترم نے اس ناول میں گلگت بلتستان کے قبائلی علاقوں کے رسم و رواج کی بھرپور نشاندہی کے ساتھ ساتھ ضلع دیامر کے خوبصورت وادیوں کا بھی حسیں چہرہ قارئین کےسامنے رکھا ہے ۔استاد محترم نے عام فہم قارئین کے مطالعے کی کیفیت و رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے ناول میں باآسان لفظوں اور جملوں کو لڑی میں پرویا ہے ۔

قارئین کی سہولت کیلے جزوی طور پر ناول کی ترتیب ، کہانی اور کرادر پر روشنی ڈالنا چاہونگا کہ "کھڑکی بھر چاند” کو پڑھنے کے بعد میری توجہ معاشرے کی ان برائیوں کی طرف مبذول ہوئ ہے جو ہمارے معاشرے میں شددت سے جنم لی چکی ہیں یہ وہ برائیاں ہیں جنہیں ہم برائی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ غیرت کے نام پر انہیں اپنے رسم و رواج کا حصہ بھی بنایا ہوا ہے ۔

اور انہی برائیوں کو جب ہم کسی علاقے میں پنپتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس علاقہ کو اور اس علاقے کے معاشرے کو مہذب سمجھ لیتے ہیں ۔ جن برائیوں کو جبراً ہم نے غیرت اور نیکی کا درجہ دے رکھا ہے اور اپنے سماج کا حصہ بنائے رکھا ہے انکی دلیل نہ تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی آئین و قانون سے ثابت ہے

بلاوجہ ہمارے زہنوں میں ایک فتور پھیلا ہوا ہے اور اس فتور کے تحت ہم نے نوجوان نسل (میلز ، فی میلز) سے انکا حق چھین لیا ہے ۔ سلیمی صاحب نے اس ناول میں بڑی مہارت و حکمت سے ایک ایسی دلچسپ کہانی ترتیب دیا ہے جو ایک ٹمبر مافیاء کی جانب سے تھلچون کے گنے جنگلات کے بےدریغ کٹاو سے شروع ہوتی ہے اور نازک اور بے گناہ نوجوان لڑکی کے خون پر ختم ہوتی ہے ۔

اس کہانی میں جنگلات کے بے دریغ کٹاو سے لیکر لڑکی کے خون ہونے تک جمشید نامی خودگرز انسان متحرک نظر آتا ہے ۔اس نوجوان کی منفی سوچ ، خودگرزی، اور انا تھلچون کے نمبردار عنایت اور اس کی بیٹی حنا اور فارسٹ کے ایماندار اور شریف نفس نوجوان آفیسر سلمان احمد کیلے وبال جان بنتی ہے ۔

ہر وقت یہ انا پرست شخص انکیلے کوئ نہ کوئ مشکل کھڑی کرتا رہتا ہے ۔اس ناول کے شروع سے لیکر آخر تک نمبردار عنایت ، حنا اور سلمان احمد کا کردار مثبت نظر آتا ہے جبکہ منفی کرادر میں جمشید، جمدر ، شکرال، بھگوتا قبیلے کی سردارنی سمورا ، سومر خان اور تکاشہ وغیرہ کا نام شامل ہے ۔ جمشید ،جمدر اور شکرال کے ساتھ ساتھ بھگوتا قبیلہ کے یہ چال باز لوگ بھی حنا کی زندگی میں زہر بھرنے پر اتر آتے ہیں ۔

ناول میں مرکزی کردار جمشید اور سلمان احمد کا ہے چونکہ یہ دونوں کہانی کے شروع سے ہی ایک دوسرے کے سخت حریف ہوتے ہیں ، جمشید اور سلمان احمد دونوں ایک ہی منزل کے حصول کیلے دو الگ راستوں میں کوشاں اور رواں دوا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مدمقابل اس قدر کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں ،

دونوں کی یہ جدو جہد اور خواہش رہتی ہے کہ نمبردار عنایت کی بیٹی حنا کو حاصل کرسکیں۔جمشید افرادی قوت اور اسلحہ کے زور پر حنا کو پانے کی جدوجہد کررہا ہوتا ہے جبکہ سلمان احمد حنا کو اپنے پیار میں گرفتار کرکے باعزت اپنی شریک سفر بنانے کی جدوجہد کرتا رہتا ہے ۔

اس کہانی میں جمشید کو اسکی انا اور خودگرزی کے باعث بار بار رسوائ کا سامناہوتا ہے اور جمشید حنا کے دل میں خود کیلے زرا بھی جگہ نہیں بناسکتا ہے۔ حنا ہمیشہ جمشید کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی جبکہ سلمان احمد کیلے ہمیشہ حنا کے دل میں پیار جاگا رہتا رہتا تھا چونکہ سلمان احمد نے اپنے نرم لب و لہجہ اور شرافت کا تصویر حنا کے دل میں اتار دیا تھا ۔

کئی دن تن و تہنا اور بے بس نوجوان لڑکی جمشید اور اسکے ساتھیوں کے جبر اور چنگل میں ہونے کے باوجود بھی اپنے نام کے ساتھ سلمان احمد کے نام کو جوڑ کے رکھا تھا ۔ جمشید اور سلمان کیلے ٹہرنے والی منزل یعنی حنا دردسری کے بعد خود مسافر بن گئ تھی ۔ حنا کو بھی اب ایسے آشیانے کی ضروت پڑھ گئ تھی کہ جہاں وہ اپنے محبوب سلمان احمد کے ساتھ اپنے مستقبل کو آرام و سکون سے گزار سکیں ۔

بظاہر یہ دونوں پریمی(حنا اور سلمان) ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے پر دل ہی دل میں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔ سلمان نے حنا کو اور حنا نے سلمان کو اپنے دل میں بے پایہ رتبہ ، مقام اور پیار دے رکھا تھا تبھی تو کٹھن اور مصائب ترین مشکلات کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد ایک سال کے قلیل وقت تک ایک دوسرے کے شریک سفر رہے ۔ یہ دونوں پریمی (حنا اور سلمان ) ناتمام عرصہ زندگی ساتھ گزارنےکی خواہش سے جدوجہد کرچکے تھے

پر وہ جدوجہد بے سود رہی چونکہ ٹھیک ایک برس بعد درندہ نما شخص جمشید کے ہاتھوں ناتمام سفر تمام ہوگیا ۔ جمشید کے ہاتھوں حنا زندگی کی بازی اور سانسوں میں شکست پاکر ہمیشہ ہمیشہ کیلے سلمان احمد سے جدا ہوئ ۔ بندوق کی خوف زدہ آواز اور حنا کی چیخ کے ساتھ ناول کی ترتیب شدہ کہانی اپنے اختتام کو جا پہنچتی ہے ۔ مطالعہ کے شوقین حضرات سے گزارش ہے کہ ایک بار ناول کا مطالعہ ضرو کریں اور اپنی رائے سے قارئین کو ضرور آگاہ کریں ۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں