افسانہ ‘پوس کی رات” فکری و فنی تجزیہ:بر صغیر پاک وہند میں بکرمی سال کا نواں مہینہ پوس“ انتہائی سرد اور برفیلا مہینہ ہے۔
صاحب استطاعت لوگ تو سردی سے بچنے کے سو طر یقے اپنا کرخود کو ہڈیاں گلا دینے والے اس موسم سے محفوظ رکھ لیتے ہیں، مگر بے وسیلہ،
خاص طور پر کسان جنہیں دنوں کے ساتھ راتوں کو اپنی فصل کی رکھوالی کی خاطر گھر سے باہر کھیتوں کے آس پاس رہ کر اس ستمگر مہینے کا جبر برداشت کرنا پڑتا ہے، اُن کا اندازہ شاید کوئی نہ لگا سکے۔ سرد بر فیلی ہواؤں کا سامنا کرتے، کہر آلو راتوں او سنسان و خوفناک تہائیوں میں ایک غریب جس طرح اس موسم کی سختیاں اور شدائد برداشت کرتا ہے،
پریم چند نے اپنے اس حقیقت پسندانہ کہانی میں ہمیں اس کی بے رحم جھلکیاں دکھائی ہیں۔ گاؤں کا کسان ہلکو پوس کے اس بے رحم مہینے میں اپنے تیار کھیت کی رکھوالی کی غرض سے، انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں گھر سے روانہ ہونے کو ہے کہ زمین دار کا کارندہ "شہبا” کھیت کے لگان کی وصولی کے لئے آدھمکتا ہے۔
ہلو کی بیوی نے اپنی ذاتی محنت مزدوری سے تین روپے بچا کر رکھے ہوئے تا کہ سردی کے اس موسم میں ایک کمبل خریدا جا سکے، مگر زمیندار کا کارندہ ان باتوں سے کب متاثر ہوتا ہے، وہ دھمکیوں اور دھاندلی سے زبردستی رقم کی وصولی چاہتا ہے۔ ہلکو کے بار بار تقاضا کرنے پر اس کی بیوی ‘منی تین’ روپوں کی یہ اکلوتی رقم اس کے حوالے کر دیتی ہے
تا کہ شہنا کی غلیظ گالیاں نہ سنا پڑہیں۔بہت سی راتوں کی طرح پوس کی یہ رات بھی ہلکو کو اپنے کھیت کی حفاظت میں اکیلے ہی گزارتا ہے، اس کے ساتھ اس کا پالتو کتا "جبر” ہے، جو کیلا اُس کی تنہائی کا ساتھی ہے اور وہ بھی ہلکو کے ساتھ ہی پوس کی اس شدید سردی میں اُس کا ساجھی ہے۔ کھیت کے کنارے ہلکو نے سردی سے بچنے کے لئے ایک چھپر بنایا ہے،
جس کے تلے بیٹھ کر وہ خود کو یہ دھوکا تو دے سکتا تھا کہ اس طرح سردی کی شدت کچھ کم ہو جائے گی مگر گنے کے چوں سے تیار کردہ یہ چپھر ہلکوکو صرف جھوٹی تسلی ہی دے پاتا تھا، سردی کی شدت میں کمی نہ لاسکتا تھا۔ ہلکو اور اُس کا وفادار ساتھی جبرا سردی سے سکڑتے پھرتے چھپر تلے بیٹھے ہیں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ ٹھنڈی برفیلی ہوا تیروں کی طرح دونوں کے جسموں کے آر پار ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔
جبرا کوں کوں کی آواز نکال کر اس کا احساس دلاتا ہے، ہلکو بار بار حقہ تازہ کر کے خود کو دھوکا دیتا ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد رات ختم ہو جائے گی مگر نیند دونوں کو جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اچانک ایک خیال بجلی کی طرح ہلکو کے ذہن میں کوندتا ہے اور وہ نزدیکی باغ میں جا کر درختوں کے سوکھے اور زمین پر گرے ہوئے پتوں کا ڈھیر لگا کر ان میں آگ جلا دیتا اور یوں ہاتھ پاؤں تاپ کر رات گزارنے کی ایک راہ نکالتا ہے۔
جبرا بھی اُس کے پاس آجاتا ہے، لیکن اچانک کھیتوں میں نیل گایوں کی آہٹ پاکر "جبرا” کھیت کی طرف بھاگ نکلتا ہے اور انسان کی خدمت اور اُس کے مال ، اموال کی حفاظت کا فطری فریضہ ادا کرنے میں جت جاتا ہے۔ سردی کی شدت میں خشک چوں کی آگ سے ہلکو کے آس پاس کا ماحول قدرے گرم اور آرام دہ ہو گیا ہے۔
"جبرا” کے بار بار بھونکنے کی آواز سن کر بھی وہ اپنی جگہ نہیں ہلتا۔اچانک اس پر نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے اور وہ چوں کی گرم راکھ کے ڈھیر کے پاس ہی نیند کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ صبح اُس کی بیوی اُسے آگ کے پاس سے بیدار کرتی اور بتاتی ہے کہ تم سور ہے ہو اور تمہاری ساری فصل تباہ ہو چکی ہے۔ تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ کھیت پر حملہ آور جانوروں کو کسی طرح بھگا دیتے ۔
وہ رات کو اچانک پیٹ میں اُٹھنے والے شدید (درد) کا بہانہ کر دیتا ہے کہ وہ خواہش کے باوجود بھی جگہ سے نہ ہل پایا تھا، پاس ہی اُس کا وفادار کتا ” جبرا رات کی اندوہناک سردی میں کسی لمحے جان کی بازی ہار چکا ہے۔
ڈاکٹر اور نگ زیب عالمگیر اس افسانے پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :پسماندہ ممالک کے کسانوں کی زندگی ، غربت، پسماندگی ، مفلوک الحالی، جہالت اور دقیا نوسیت کا عبرت ناک مرقع ہوا کرتی ہے۔ کسانوں کی مشقت بھری زندگی اور دیہاتی معاشرہ پریم چند کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
مختلف افسانوں میں پریم چند نے معاشرے کے اسی اہم مگر انتہائی بے وسیلہ طبقوں کی زندگی کے عبرت ناک اور قابل رحم پہلوؤں کو پیش کیا ہے ۔ "پوس کی رات بھی ایک ایسا ہی افسانہ ہے، جس میں پریم چند نے بعض دیگر افسانوں کی طرح کسانوں کی غربت اور مفلوک الحالی کی درد انگیز تصویر پیش کی ہے۔
کسانوں کی ہڈیوں اور جان کو کچل دینے والی تلخ کڑی اور شدید محنت ، انہیں غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی سطح سے بلند نہیں کرسکتی ، انہیں پیٹ بھر روٹی ملتی ہے، نہ تن ڈھانکنے کو کپڑا ، ایک ضرورت پوری ہو تو دوسری تشنہ رہ جاتی ہے اور پھر شدید ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر دوسری ضرورتوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
انتہائی محدود وسائل اور کم آمدنی ، اس صورت حال میں زمینداروں اور اُن کے بے رحم کارندوں کا استحصال اور بے رحمانہ رویہ، اس صورت حال کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ کسان ، غربت، استحصال اور پسماندگی کے جس چنگل میں گرفتار رہتا ہے، یہی اس افسانے کا مرکزی خیال ہے ۔“
افسانے کا اخیر ڈرامائی صورت کا حامل ہے، کھیت کی بربادی اور بیوی کی جلی کٹی مگر مبنی بر حقیقت زہر ناک گفتگو کے بعد وہ اپنے کتے "جبرا” کو آوازیں دیتا ہے کہ آپھر گھر چلیں مگر وہ جانتا ہی نہیں کہ اس کا وفادار کتا ادائے فرض کے دوران ہی کسی لمحے موت کا شکار ہو چکا ہے۔ پریم چند کا یہ افسانہ پہلی بار مادھوری کے مئی 1930 ء کے ایڈیشن میں اور دوبارہ پریم چالیسی” میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں