ناول حاصل گھاٹ کا تنقیدی جائزہ

ناول حاصل گھاٹ کا تنقیدی جائزہ

ناول حاصل گھاٹ بانو قدسیہ کا تخلیق کردہ ایک ایسا ناول ہے جسے کئی اصحاب ناولٹ کا نام بھی دیتے ہیں، یہ ناول ۲۰۰۳ء میں لکھا گیا ۔

یہ ناول ۲۳۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ناول کو بانو قدسیہ نے ہجرت کرنے والوں سے منسوب کیا ہے اس ناول میں اگر گہرائی سے جھانکنے کی کوشش کریں تو مختلف پر تھیں گھل کر سامنے آئیں گی۔

ہجرت روز اول سے انسان کا شوق اور انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اگر ہم پیغمبران اسلام کی بات کریں تو انہوں نے بھی اللہ کے حکم سے ہجرت جیسے اہم کارنامے کو انجام دیا اور اس سے انھیں سکون قلب نصیب ہوا کیونکہ ان کی ہجرت حکم الہی تھی۔ لیکن اگر عام انسان کی ہجرت کی بات کی جائے تو اس ہجرت سے درد، کرب ، مایوسی ، اُداسی وغیرہ مقدر بن جاتے ہیں۔

اس ناول میں بانو قدسیہ نے بڑے موثر انداز میں وہ وجوہات بیان کئے ہیں جو انسان کو ہجرت پر اکساتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہجرت کر کے حاصل ہونے والے ان گنت تکالیف، پریشانیوں وغیرہ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

اس ناول کی کہانی نہایت سادہ ہے جو کہ واحد متکلم کی یاداشتوں سے تشکیل پا کر قاری تک پہنچتی ہے۔ ہمایوں جسے اس ناول میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے اور جو کہ اس کہانی کا راوی بھی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے آئے ہوتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان میں سکون پذیر ہوتے ہیں ۔

اس کی بیوی اصغری اگر چہ پہلے ہی زندگی کی آخری ہجرت پر روانہ ہو جاتی ہے یعنی اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہے لیکن ہمایوں کے دو بچے ارجمند اور جہانگیر مادی دنیا کے ساتھ قدم ملانے کے لیے اپنے ہمسفروں بلال اور شاہدہ کے ساتھ امریکہ کی ہجرت کو جاتے ہیں

اور بیٹی ارجمند کے اسرار پر ہمایوں بھی پاکستان سے امریکہ آتا ہے لیکن اپنے ملک کی محبت اس کے رگ رگ میں اس طرح پیوست ہوگئی ہوتی ہیں کہ اُسے ہر طرح سے اپنا وطن یاد آ رہا ہوتا ہے۔ دراصل ایک بچے وطن پرست انسان کی ہجرت ایک ایسا عمل ہے جس میں آدمی اپنا جسم تو ساتھ لے جاتا ہے لیکن اس کی روح اس کے تابع نہیں ہوتی ۔

روح تو وہی پر رہتی ہیں جہاں خوشی اور شادمانی ہو، جہاں یا طفلی تازہ ہو ۔ ہمایوں جو کہ ارجمند یعنی اپنی بیٹی کی محبت کی وجہ سے اُسے دیکھنے سات سمندر پار جاتا ہے لیکن وہاں رہ کر بھی وہ خود کو اس ماحول میں ڈالنے سے ناکام ہو جاتا ہے ۔ مصنفہ نے اپنی بیٹی کے تئیں باپ کی بے لوث محبت کو بیان کیا ہے۔

ارجمند اگر چہ اپنے والد کے امریکہ آنے کے فیصلے سے بے حد خوش ہو جاتی ہیں اور وہ بار بار اپنے والد سے اس بات کا اسرار کرتی ہے کہ اس نے اچھا کیا جو یہاں آئے

۔ انسان کو ہمیشہ تبدیلی قبول کرنی چاہیے یہاں آکر آپ کا چینج ہوگا، لیکن صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو ہمایوں یعنی ارجمند کے والد اس طرح کی کوئی تبدیلی نہیں چاہتے تھے وہ اپنی بیٹی کی محبت میں مجبور ہو کر سفر کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں که شاید ارجمند ہم سب سے دور ہو کر گھٹن بھری زندگی بسر تو نہیں کر رہی ۔

یہاں مصنفہ نے بڑے حسین انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ دنیا بڑی عجیب ہے، بیٹی اگر چہ کسی دوسرے کی امانت ہوتی ہیں اور بیٹے پر والدین کا حق اگر چہ شروع سے آخر تک یکساں رہتا ہے لیکن اس سب کے باوجود والدین بیٹی سے الگ نہیں ہو پاتے اور بیٹے کے ساتھ ہمیشہ رہ کر بھی اس کے ساتھ مل نہیں پاتے۔ مشرق اور مغرب کا عکس پیش کرنے کے معاملے میں یہ ناول نہایت اہم ہے ۔

مصنفہ نے اس ناول کے ذریعے اس بات سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ مغرب میں اُسی انسان کی عزت ہے جو کام کرے یعنی انسانی رشتوں سے بھی زیادہ گہرا رشتہ کام کا ہے۔ اصل امریکی معاشرہ انسانوں سے بچھڑنے کے معاملے میں بھی نہایت تیز ہے ۔

مشرق و مغرب کے فرق کو مصنفہ نے بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیاہے مصنفہ نے ہمایوں کی زبانی اس فرق کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے:

میرے دماغ کی سکرین پر امریکہ اور پاکستان دونوں باری باری اور کبھی ساتھ ساتھ بھی چلتے ہیں۔ میرے ارد گرد کیانگ کا مقولہ گھومتا رہتا ہے کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق ، یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے، سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں ؟ مشرق میں جب سورج چڑھتا ہے، مغرب میں عین اسی وقت آغاز شب کا منظر ہوتا ہے۔

سورج انسان کے دن اور رات کو متعین کرنے والا ہے ، پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں تو بھلے ہی سارے فرق منائے ایک مخلوق ہوتی ہے دوسری جگہ بیدار ہوتی ہے۔ فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے ۔ ۲۹مشرق میں اور خصوصاً اگر ہم بات کریں تو پاکستان میں عورت کا کردار

ویسا ہی ہے جیسا پہلے پہلے تھا یعنی عورت کے لیے سب سے بڑا کام اپنی اولاد کی احسن طریقے سے تربیت کرنا ہوتا ہے اور وہ اولاد کی خوشی میں خوشی محسوس کرتی ہیں، لیکن مغرب میں عورت نے اب اپنے مستقبل کی طرف خصوصی توجہ دی ہے یعنی وہ اب مرد کے شانہ بہ شانہ چل کر خوشی محسوس کر رہی ہیں

لیکن صحیح معنوں میں وہ خوشی محسوس نہیں کر پاتی بلکہ خود کو جکڑ بندیوں میں جکڑ کر آزادی محسوس کرنا چاہتی ہے جو قطعی ممکن نہیں ۔ دراصل مصنفہ اس ناول میں یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ مشرق کی روحانی ترقی کا دارو مدار الگ چیزوں پر ہے جب کہ مغرب کی ترقی علم اور پیسہ ہے شاید یہی وجہ ہے

کہ مغربی لوگ اتنی ترقی کے باوجود داہنی طور پر آزاد نہیں، میڈیا وغیرہ انسان کی تنہائی کو نہیں مٹا سکتے، اگر مغرب میں کسی انسان کو کسی بات یا کسی معاملے کا دُکھ ہے تو وہ دُکھ صرف اُسی کا ہے ، جب کہ مشرق میں یہ دُکھ اُس کے سارے خاندان کا دُکھ گردانا جاتا ہے۔ دراصل امریکہ میں آزاد خیال شہری اسے قرار دیا جاتا ہے جو تمام رشتوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو۔

جو مذہب ، رسم و رواج وغیرہ جیسی زنجیروں سے خود کو آزاد رکھے ۔ بانو قدسیہ نے اس ناول میں ہمایوں کی زبانی تعلق کو نہ ٹوٹنے والی شئے قرار دیا ہے۔

اس ناول کا ایک کردار ماں کی ممتا جیسی صفات سے لبریز ہے اور جس کے بچے امریکہ میں رہ کر اپنے والدین کے پاس لاہور باران ۔ اور جانے سے انکار کرتے ہیں اسی اثنا میں ان کی والدہ کئی بار ان کو واپس لے جانے آتی ہیں لیکن ہر بار اس کے ہاتھ نا کامی آتی ہیں لیکن وہ چاہ کر بھی ان سے اپنا تعلق منقطع نہیں کر پاتی ۔

عزیزہ جب اس پریشانی کا ذکر ہمایوں سے کرتی ہیں تو اُس کی آنکھوں سے آنسوں لگا تار جاری ہو جاتے ہیں۔ ہمایوں جو کہ خو دبے بس تھا وہ اسے اس بات سے باور کرانا چاہتا تھا کہ انسان اتنا مضبوط نہیں کہ وہ اپنوں سے تعلق اتنی آسانی سے توڑ دیں۔

دراصل انسان ہمیشہ بے بس ہوتا ہے وہ اگر کسی شخص سے دور بھی ہو لیکن وہ شخص خوابوں اور خیالوں میں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا ، علاوہ ازیں وہ اس عورت کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا

کہ وہ تو ماں ہو کر تشویش کا اظہار کر رہی ہے جو کہ ٹھیک فعل ہے، لیکن میں تو بچپن کی محبت یعنی اقبال کی یادوں سے اب تک خود کو آزاد نہیں کر پارہا ہوں ، جب کہ مجھے اس رشتے کے انجام کی خبر ہے کہ اس سب سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر مشرق کی بات کریں تو وہاں خاندانی زندگی کی روایات کے تحت عورت اپنی پوری حیات کو اولاد کی نظر کرتی ہیں لیکن مغرب میں یہ تصور نا پید ہے۔

مصنفہ نے ہمایوں کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ پہلے پہلے مشرق میں مرد کی شادی کمائی دیکھ کر کی جاتی تھی اگر چہ وہ زیادہ حسین و جمیل نہ بھی ہوتا لیکن عورت سے کسی نہ کسی طرح قربانی مانگی جاتی اور وہ اس کام میں پیچھے نہیں بنتی تھی

اسی طرح ہمایوں کے دادا جو کہ شکل وصورت کے اعتبار سے بالکل بھی اچھے نہیں تھے لیکن ان کی کمائی کی وجہ سے انھیں خوبصورت بیوی ملی۔ مغرب اور خاص کر امریکہ میں لوگ بوڑھے والدین کو ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں سمجھتے ہیں اس لیے امریکہ والوں نے اولڈ ایج ہومز بنائے اور اپنے والدین کو ان ہومز کی نذر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم مشرق کی بات کریں تو مشرق میں والدین کی خدمت کو نہایت اجر عظیم والا کام سمجھا جاتا ہے۔

بانو قدسیہ نے اس ناول میں اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ مغرب میں عورت کو کمانے میں مرد کے برابر حصہ دار رہنا پڑتا ہے اور اسی طرح گھر کے کام کاج میں مرد کو بھی عورت کے برابر شریک ہونا پڑتا ہے۔ ہمایوں یعنی ارجمند کے والد نے جو بھی وقت امریکہ میں بسر کیا وہ تقابلی سوچوں کی نظر ہو گیا ۔

وہ ہر وقت اُس قلب سکون اور راحت کے بارے میں سوچتا ہے جو اُسے امریکہ میں کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔ اس کی بیٹی مادی زندگی کو خوشگوار بنانے میں اپنی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔

اسی طرح ہمایوں کا بیٹا جہانگیر جس کی پرورش میں اصغری اور ہمایوں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ تے لیکن اسے ایک ایسی آزادی درکار تھی جو مشرق میں ممکن نہ تھی۔اس ناول میں بانو قدسیہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ نئے معاشرے میں قدم رکھنے کا سب سے بڑا خسارہ عورت کو ہی جھیلنا پڑتا ہے ۔

وہ اگر گھر کی ذمہ داریوں اور بچوں کی پرورش سے پہلے پہلے شاد ماں ہوتی تھی لیکن جدید معاشرے کے طفیل وہ اپنا کردار بدل چکی ہے۔ اسکے علاوہ مصنفہ اس ناول میں اس نقطے کو بھی اجاگر کرتی ہیں کہ ترقی کی جو سب سے بڑی قیمت انسان کو چکانی پڑتی ہیں وہ ہے

قطع تعلقی اور وہ کسی بھی رشتے کے روپ میں ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم بچے کی بات لیں مغرب میں ماں ان کو Day‏ ‏care centre کے حوالے کر کے خود کی شفقت سے ان کو دور کر دیتی ہے،

اس طرح وہ بچپن سے اس شفیق سائے سے محروم ہو جاتا ہے۔مصنفہ نے اس ناول میں اولاد کی والدین کے ساتھ تلخ گفتگو کو بھی دکھایا ہے یعنی جہانگیر کے والدین جنہوں نے اُسے ڈاکٹر بنانے میں ہر طرح کی کوششیں کی تھیں لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچا تواسے اپنے والدین کی قربانی یاد نہ رہی اور وہ اپنے والدین سے ہر آن یہ کہتا ہے کہ انہوں نے اُسے صرف کتابی کیڑا بنایا۔ اسے سیاسی، معاشرتی وغیرہ گفتگو کے اسرار ورموز نہ سکھائے۔

اُسے مقابلے کے لے لیے تیار نہ کیا، غرض اُسے وہ سب نہ دیا جس کی ضرورت مادی دنیا میں رہنے والے فرد کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس ناول میں مصنفہ نے جہانگیر کی زبانی اپنے والد کو وہ ساری با تمیں سنائی جو شاید ہر اولا د بڑے ہو کر اپنے والدین کو مناتے ہیں۔ یعنی اس ناول میں وہ مکالمے ناول کا حُسن تو ضرور بڑھاتے ہیں

لیکن یہ مکالے قاری کے ذہن و قلب پر وہ تیر پیوست کرتے ہیں جس کی پچھن پورے معاشرے کو محسوس ہوتی ہیں۔ یا یوں بھی کہے کہ یہ ناول مصنفہ کی ایسی تخلیق ہیں جس کی چہکتی ہوئی موجیں قاری کے نجر ذہن کو سیراب کرتی ہیں

تو غلط نہ ہوگا۔ ہر والدین بھر پور سعی کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دے سکے اور اُسے دنیا کے میدان میں نہ صرف چلنے کے لیے تیار کریں بلکہ دوڑنے کے لیے بھی تیار کریں لیکن کاش اولاد کو والدین کی قربانی کا احساس وقت پر ہوتا تو شاید بہت سارے والدین وقت سے پہلے بوڑھے نہ ہوتے۔مصنفہ نے مغرب خاص کر امریکہ میں داخل ہونے کے بعد اولین سطح پر اپنے لباس اور زبان کے تئیں بے وفائی کو بیان کیا ہے

اور پھر ان دو چیزوں کے بعد مصنفہ ہمایوں کی زبانی یہ کہلواتی ہیں کہ دھیرے دھیرے مغرب میں داخل ہونے کے بعد انسان کو کئی طرح کی کمیاں ستاتی ہیں جن میں چہرے کو مغربی لوگوں کی طرح سفید کرنا بھی ایک خاص کمی ہے۔ عورت تو میک اپ کر کے اس کمی کا ازالہ کرتی ہیں پھر آہستہ آہستہ ان تبدیلیوں کے ساتھ مذہبی روایات کو فراموش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود وہ اکثریت کا حصہ نہیں بن پاتیں ۔ اگر چہ یہ سارے لوگ یعنی نیگرو، سری لنکن ، پاکستانی وغیرہ امریکہ جیسے ملک کی شناخت حاصل کرنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو شاید انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ان کے یہ بدلاؤ کا نظریہ صرف انہیں تک محدود درہتا ہے یعنی امریکہ والوں نے جدا گانہ نسلی امتیاز اس حد تک قائم کیا ہے کہ ان جیسا بنایا ان کے معاشرے میں ان جیسا مقام قائم کرنا دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔

گو ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر وہ سب کرے جو اُسے اور اس کے ملک کو فایدہ دے، نہ کہ کسی ایسی قوم یا کسی ایسے ملک کے لیے وہ سب کرے جہاں اس کی قربانی بے سود نظر آئے۔بانو قدسیہ نے اس ناول میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک طرح سے موازنہ کیا ہے ۔ ہمایوں جس کی زندگی مشرق میں گزری تھی اور انسان کی زندگی جہاں پر گزرتی ہیں وہاں کی تہذیب وتمدن اس کے رگ رگ میں پیوست ہو جاتی ہیں۔

اس ناول میں مصنفہ نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ بچوں کی شخصیت پر بزرگوں کی گہری چھاپ پڑتی ہیں۔ بزرگوں کی معمولی سے معمولی باتیں بھی ایک بچے کی شخصیت کو بنانے کے لیے ذمہ دار ہوتی ہیں دادی کی شخصیت سے مصنفہ نے یہ دکھایا ہے کہ دادی کے پاس تمامقدروں کی وراثت تھی۔

اس ناول میں مصنفہ نے کئی سبق آموز حکایتیں بھی شامل کر کے اس ناول میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ ان ہی قصوں میں معجزے کے قصے کو بھی مصنفہ نے اس کہانی میں پُر اثر ار انداز میں اسطرح ضم کیا ہے کہ قاری ان سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور ان معجزوں پر یقین کرنے لگتا ہے ۔

دراصل معجزے کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں ۔ انجلا جو کہ گیارہ برس کی عمر میں ہی چلنے پھرنے کے عمل سے محروم ہوتی ہیں اگر چہ اس کے والدین اسے صحت یاب کرانے کے لیے نہایت تک و دو کرتے ہیں لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوتی ۔ اینجلا میں لیکن ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ اپنے اللہ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوتی

۔در اصل ہم اللہ پر پختہ یقین اور اعتماد کر کے اپنی منزل مقصود کو پا سکتے ہیں۔ ناول کے آخری حصے میں ہمایوں کی ملاقات اقبال سے ہوتی ہے اور وہ اس کے سامنے اپنی بچی مونا کے دینی طور پر بیمار ہونے کے راز کو عیاں کرتی ہے۔ یہاں مصنفہ نے پھر ایک بار عورت کی قربانی کے جذبے کو جو ہر دور میں اس کا مقدر رہا ہے کو اجاگر کیا ہے۔

اقبال ہمایوں سے امریکہ سے اس لیے چلے جانے کو کہتی ہے تا کہ وہ اپنی بیٹی کا علاج وہاں رہ کر کروائیں اور ہمایوں کے وہاں رہنے سے وہ کسی امید سے بندھے رہنا نہیں چاہتی ۔ وہ اپنے دل کے درد و کرب کا اظہار ہمایوں سے کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہے ۔ دراصل اس کے اندر ویرانی ہوتی ہے اور اس ویرانی کو دور کرنے کے لیے اسے پیار کی چاہ اب نہیں ہوتی

کیونکہ اس کے مطابق وہ اپنی ایب نارمل بیٹی کے ساتھ رہ کر نارمل نہیں رہی۔ہمایوں کا امریکہ چھوڑنا اس بات کا نماز ہے کہ انسان ہر بار اپنے چاہنے والے کی چاہت سے فایدہ اٹھا کر وہ سب کچھ کرواتا ہے جو عاشق و معشوق دونوں کے لیے نا گوار ہوتا ہے لیکن اپنی محبت کی لاج۔۔۔۔۔۔۔

ماخذ: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں