قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری بحوالہ میرے بھی صنم خانے اور آگ کا دریا
تحریر از پروفیسر برکت علی
موضوعات کی فہرست
قرة العین حیدر کی ناول نگاری
۱۹۳۷ء کے بعد سامنے آنے والی خواتین ناول نگاروں میں پہلا نام قرۃ العین حیدر کا ہے۔ ان کا پہلا ناول ” میرے بھی صنم خانے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔
قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے محترم اور معتبر فکشن نگار ہیں۔ اُردو ناول اور افسانہ کو معیار اور وقار عطا کرنے میں قرة العین حیدر نے جو خدمات انجام دی ہیں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
برصغیر کی تہذیبی کروٹوں کو اس کی تمام تر نیرنگیوں کے ساتھ گرفت میں لے کر ماہرانہ فنی و جمالیاتی دروبست کے ساتھ اپنے افسانوں اور خصوصاً ناولوں میں پیش کرنے کے حوالے سے اُردو کا کوئی دوسرا فکشن نگار ان کی ہم سری نہیں کر سکتا ۔
قرۃ العین حیدر نے متحدہ ہندوستان کے سیاسی سماجی اور تہذیبی عروج وزوال کے تناظر میں جو ناول تخلیق کئے ہیں انھیں ہندوستان کی جمالیاتی دستاویز بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں ان کا ناول "آگ کا دریا” ایک شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں ” آخر شب کے ہم سفر” اور "چاندنی بیگم” کی اہمیت بھی کم نہیں ہے ۔
آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔
چاندنی بیگم قرۃ العین حیدر کا آخری ناول ہے جو 1990ء میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کے جو ناول شائع ہوئے وہ اس طرح ہیں۔
میرے بھی صنم خانے ۱۹۴۹ء
سفینه غم دل ۱۹۵۲ ۲
آگ کا دریا ۱۹۵۹ء
آخری شب کے ہم سفر ۱۹۷۷ء
کار جہاں داز ہے ۱۹۷۹ء ۵
گردش رنگ چمن ۱۹۸۸ء
اس کے علاوہ قرۃ العین حیدر نے کئی مختصر ناول (ناولٹ ) بھی لکھے۔
مثلا سیتا ہرن، چائے کے باغ، ہاوسنگ سوسائٹی ،دار یا اور اگلے جنم موہے بٹیانہ کچھ وغیرہ۔
قرة العین حیدر کے تقریباً سبھی ناول ہندی میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ "آگ کا دریا”.
اور آخر شب کے ہم سفر کے ترجمے ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
قرۃ العین حیدر کی اکثر تخلیقات میں اودھ اتر پردیش اور مشرقی ہندوستان کا ماحول اپنے تاریخی تناظر اور تہذیبی خط وخال کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔
ان کے ناولوں میں برطانوی عہد سے لے کر آزادی کے بعد کے جدید ہندوستان اور پاکستان کی تہذیبی صورت حال کو پیش کیا گیا ہے۔
خاص طور پر مشترکہ تہذیب کی شکست و ریخت کے کرب کا اظہار انھوں نے اپنے تمام ناولوں میں کیا ہے ۔
عصری حسیت کا بیان جیسا قرۃ العین حیدر کے یہاں ہوا ہے کسی اور کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے ۔
” میرے بھی صنم خانے” سے لے کر چاندنی بیگم تک قرۃ العین حیدر کے یہاں وقت کا جدید ترین تصور شعور کی رو کی تکنیک اور زبان کا تخلیقی برتاو ان کی ایک الگ پہچان قائم کرتا ہے۔
ناول میرے بھی صنم خانے کا تنقیدی جائزہ
"میرے بھی صنم خانے” ان کا پہلا ناول ہے ۔ جس میں ناول نگار نے اپنے کرداروں کے اندرون ذات میں جھانکنے کی کوشش کی ہے اور واقعات ، بیانیہ اور محاکات کے بجائے کرداروں پر زیادہ توجہ دیا ہے۔
یہ ناول اودھ کے زوال پذیر جاگیردارانہ معاشرت کی نمائندگی کرتا ہے اور جس میں اس معاشرت کی نئی نسوانی کردار رخشندہ اپنے سماج کی نئی نسل کی ترجمان بن کر ابھرتی ہے۔
وہ روشن خیال ترقی پسند اور باشعور کردار ہے ۔ رخشندہ کے عزیز واقارب اور اس طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کے دوست احباب پی پو، گنتی ، کر سٹائل، قمر آرا، انور عظیم، زینت ، ڈائمنڈ اور شہلا وغیرہ کے کرداروں سے ناول کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔
ناول کے سبھی کردار مختلف فکروں میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیالات کی تصویر کشی قرۃ العین حیدر اکہرے انداز میں کرتی ہیں۔
اور کم و بیش سبھی کے خیالات و نظریات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جس کو با آسانی ایک ہی کی سوچ قرار دے سکتے ہیں۔
یہ کردار اپنے عہد کے مسائل سے الجھتے ہیں اور اس مسائل کے نتیجے میں ذہنی کرب اور نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار نظر آتے ہیں۔
ان میں پیدا شدہ حالات اور معاشرتی زندگی میں خوش آئند تبدیلیاں لانے کی رومانی امنگ ہے اور عہد شباب کا لاابالی پن بھی۔
تقسیم وطن کا واقعہ ان کی زندگی میں ایک تباہ کن حادثہ بن کر آتا ہے۔ جس سے ان کی دنیا، ان کے خواب، ان کی آرزوئیں سب ریت کی دیوار کی سطح گر جاتی ہیں ۔
سارے کردار بکھر جاتے ہیں۔ ان کی محفلیں، کلب ، رقص گاہیں، ریڈیو اسٹیشن ، ڈرامے اور تفریح گا ہیں سب کچھ ویرانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔
اور تقریباً سارے کردار مایوسی کی فضا میں ڈوب جاتے ہیں۔رخشندہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے ۔ جس کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔
اس کے ذہن کی تنہائیاں، مایوسیاں اور محرومیاں بعض جگہ بے حد متاثر کرتی ہیں۔
ناول نگار نے اس اہم نسوانی کردار کے ذریعے تقسیم ہند کے المیے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔
جسے وہ عظیم انسانی ٹریجڈی کے نام سے یاد کرتی ہیں۔ رخشندہ بے حد جذباتی اور تعلیم یافتہ خاتون ہے۔
جب ملک تقسیم کے عمل سے دو چار ہوتا ہے اور چاروں طرف فسادات پھوٹ پڑتے ہیں تو وہ ان تمام حالات سے حد درجہ متاثر ہوتی ہے۔
اور یہیں سے ناول میں شکستم کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ فسادات اور قتل و غارت کے خونی ماحول سے سارے کردار بکھر جاتے ہیں۔
رخشندہ بھی اکیلی ہو جاتی ہے۔ جہاں اس کا کوئی رفیق نہیں۔ کوئی مونس و غم خوار نہیں چند دنوں کے حالات نے اسے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔
جہاں بھی زندگی کی توانائی اور حرات تھی ۔ وہاں اب صرف ویرانی ہی ویرانی ہے ۔ وہ خود اجنبیت کے احساس سے دوچار ہے۔
بے بسی، محرومی اور بدلتے ہوئے حالات کا المیہ رخشندہ کے کردار کی صورت میں ابھر کر سامنے آتا ہے ۔
قرۃ العین نے ایک آدرش زندگی کو پروان چڑھتے اور پھر اسے درد ناک انداز میں مٹتے ہوئے دکھایا ہے۔
جس کی وجہ سے اس ناول کی پوری کہانی داستان غم بن گئی ہے ۔
ممتاز شیریں نے رخشندہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے :
"وہ ایک بت معلوم ہوتی ہے۔ جسے قرۃ العین حیدر نے تراشا ہے، پرستش کی ہے اور پھر توڑ دیا ہے۔”
ان تمام باتوں کے باوجود قرۃ العین حیدر نے اس کردا کے ذریعے ذہنی جلا وطنی کی مختلف کیفیات کو نہ صرف موثر ڈھنگ سے نمایاں کیا ہے، بلکہ انھوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو وہ کہنا چاہتی ہیں۔
مقبول حسن خاں رخشندہ کو ان کے تمام کرداروں میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں۔
"رخشندہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں بار بار آنے والا کردار ہے اور ہمیشہ ایک مہم لیکن واقعی نفسیاتی وقار کا حامل.” (۲)
اس ناول میں کردار نگاری زیادہ تر ترقی پسندانہ انداز میں کی گئی ہے جس سے کرداروں کی اپنی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے نقوش سماج پر گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے خدو خال بھی نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔
آگ کا دریا کا تنقیدی جائزہ
۱۹۶۰ء تک کے عرصے میں ہی قرۃ العین حیدر کا شاہ کار ناول ‘آگ کا دریا لکھا۔
قرة العین حیدر نے "آگ کا دریا” لکھتے وقت ورجینیا وولف کے اثراتی ناول اور لینڈو (Orlando) کو پیش نظر رکھا ہے ۔
یہ کردار خود ورجینیا وولف نے شیکسپئر سے مستعار لیا تھا تاکہ انگریزی مزاج کی ترجمانی کی جاسکے ۔
اس نے اپنے ناول میں یہ دکھایا کہ سولہویں صدی عیسوی سے عہد موجود تک ایک برطانوی باشندے کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔
اس نے اپنے کیریکٹر اور لینڈو کوم استقلا” زندہ رکھا حالانکہ اس کی جنس بھی بدل گئی۔
شروع میں وہ ایک نڈر جنگ باز تھا۔ مگر انیسویں صدی میں وہ اچانک عورت بن گیا۔ غالباً اس تبدیلی سے ورجینیا وولف یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ سولہویں صدی کا شجاع اور بے خطر انگریز انیسویں صدی میں پہنچ کر محض ایک عیار سیاسی مدیر (Diplomat) رہ گیا۔
جس نے آدھی دنیا کی نو آبادیوں پر اپنا قبضہ جمالیا ۔
جوڑ توڑ چونکہ عورت کی صفت ہے برخلاف قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول میں کرداروں کو معمول کے مطابق مرنے دیا۔
البتہ انہیں انہی ناموں کے ساتھ اگلے زمانوں میں پیدا کر کے ہندوستانی کردار اور مزاج کی تبدیلیوں کو پیش کیا۔
ور جينيا وولف اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ایک اور اہم مماثلت یہ ہے کہ جس طرح اور لینڈو سکون قلب کی جستجو میں مصروف دکھایا ہے۔
اسی طرح گوتم ، ہری شنکر ، اور ابو منصور کمال الدین وغیرہ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
او لینڈو ( نسوانی روپ میں ) ایک جگہ کہتی ہے۔
"I have sought happiness through many ages and not found it.” (3)
یہی کیفیت گو تم نیلمبر کی تھی۔ تلاش حق میں اس نے کیا کیا کچھ کیا۔ ملاحظہ ہو :
"گوتم اب چوبیس سال کا ہوچکا تھا۔ اتنی مدت میں پہلے وہ سوفسطائی بنا پھر اس نے شو کی پوجا کی۔
ہری بھگوت بنا۔ کپل کے نظریوں پر اس نے شرحیں لکھیں۔ اس نے اپنے ہم نام فلسفی گوتم کا مطالعہ کیا۔
جس نے براہمنوں کے مذہب کے قوانین بنائے تھے اور قوت کے مسئلے پر سوچ بچار کیا تھا۔
ہری شنکر سے ملنے کے بعد اسے گوتم سدھارتھ سے دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ لیکن اب تک وہ اس دیس کی ازلی اور ابدی سو چنے اور کھوجنے والی روح تھی۔
جو کبھی اور کسی جگہ مطمئن نہ ہوتی تھی۔ جو برابر اس سوال کے جواب کی تلاش میں مصروف تھی کہ کسی طرح جانیں“۔ (۴)
حقیقت کی جستجو میں نا اُمید ہو کر جیسے اور لینڈو کے دل و دماغ پر ایک اداسی چھا گئی اور وہ Illusions کو زندگی کی بقا کا ضامن ، سچائی کو قاتل ، حات کو خواب اور بیداری کو موت تصور کرنے لگی۔
بالکل ویسے ہی آگ کا دریا کا ایک اہم کردار کمال Illusions کا شکار ہو گیا ۔ اس کی ذہنی کیفیت کا انداز اس مکالمے سے بخوبی ہوتا ہے:
"سائے قائم رہتے ہیں انسان ختم ہو جاتا ہے۔ سائے میں بڑی طاقت ہے۔
ہم عمر بھر مختلف سایوں کا تعاقب کرتے رہتے ہیں مگر سایہ ہاتھ نہیں آتا ۔
وہ اپنی جگہ انمٹ ہے۔ سائے کی اور وقت کی آپس میں سازش ہے۔” (۵)
قرۃ العین حیدر نے ” اولینڈ و” سے ایک اور چیز کا اکتساب کیا ہے اور وہ ہے زمانے کو تبدیل کرنے کا طریق کار ۔
مثال کے طور پر ورجینیا وولف اٹھارویں صدی کے انتقام اور انیسویں صدی کے آغاز کویوں بیان کرتی ہے :
"With the twelfth stroke of midnight the darkness was complete A turbulent welter of cloud coverd the city All was darkness all was dout: All was confusion.
The Eighteenth century was over, the Ninteeth century had begun,”(6)
آگ کا دریا” میں بھی عہد کی تبدیلی کا ایک ایسا ہی خوبصورت انداز ملتا ہے ۔
ملاحظہ ہوں۔ گو تم نیلم کے زمانے کو ابو المنصور کمال الدین کے دور میں مصنفہ نے کسی طرح منتقل کیا ہے۔
"اب وہ بہت تھک چکا تھا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ پتھر کو پکڑ کر اس نے ذراکی ذرا آنکھیں بند کیں۔
وقت کا ریلا پانی کو بہائے لیے جاتا تھا۔ چاروں اور وسعت تھی لیکن پتھر کو اپنی گرفت میں لے کر اسے ایک لمحے کے لیے اپنی حفاظت کا احساس ہوا
کیونکہ پتھر جس کا ماضی سے تعلق ہے آنے والے زمانوں میں بھی ایسا ہی رہے گا۔
لیکن اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کٹی ہوئی تھیں اور پل بھر سے زیادہ پتھر کو اپنی گرفت میں نہ رکھ سکا۔
سرجو کی موجیں گوتم نیلم کے اوپر سے گزرتی چلی گئیں ۔ ابوالمنصور کمال الدین نے کنارے پر پہنچ کر اپنا شیام کرن گھوڑا برگد کے درخت کے نیچے باندھا اور چاروں اور نظر ڈالی”(۷)
جس طرح اور جینا وولف کے او لینڈو نے اپنے موضوع اور اسلوب کے اچھوتے پن سے متعدد لکھنے والوں کو متاثر کیا اسی طرح قرۃ العین حیدر کے "آگ کا دریا” نے بھی اُردو زبان کے کئی ادبیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے با قاعدہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے "سنگم” تخلیق کیا۔
عبداللہ حسین نے "اداس نسلیں“ لکھا جو اگر چہ بے وجہ تکرار کے باعث ایک کم تر درجے کا ناول بن کر رہ گیا ہے۔
تاہم اسے نقادوں نے بیج زمانی طوالت اور موضوع و اسلوب کی بدولت اُردو کے چند عظیم ناولوں میں شمار کیا ہے.
اسی طرح جمیلہ ہاشمی کے ناول "دشت سوس” اور انتظار حسین کا ناول "بستی” سب قرۃ العین حیدر کی پیروی میں لکھے گئے۔
اور ان میں "آگ کا دریا” کے واضح اثرات جھلکتے ہیں۔