بانو قدسیہ کے ناولٹ موم کی گلیاں کا تنقیدی جائزہ
یہ ناولٹ بانو قدسیہ کا ایک بہترین ناولٹ ہے جون۲۰۰۰ ء میں تحریر کیا گیا۔ یہ ناولٹ ۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اختصار کے باوجود اس ناولٹ کو نو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ناولٹ کی شروعات تقسیم سے پہلے گھر کے رہن سہن سے ہوتی ہیں۔
اس ناولٹ میں (رکی ٹکی) کو راوی کی حیثیت حاصل ہے۔ تقسیم سے پہلے رکی ٹکی، اس کا بھائی خرم ، ان کے والدین ، چچا، تایاں جان اور بڑے میر صاحب یعنی ان کے دادا وغیرہ اکھٹے رہتے تھے اور دادا کو گھر کے سردار کی حیثیت حاصل تھی ۔ دراصل اس ناولٹ کے شروع میں ہی یہ دکھایا گیا ہے کہ جب گھر کی بھاگ دوڑ کسی بڑے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو وہ گھر کبھی برباد نہیں ہوتا اور جو چین و سکون مل جل کر رہنے میں ہیں وہ علاحدہ رہنے میں نہیں اور بڑے کی سر پرستی جب تک حاصل ہو گھر کے چھوٹوں کی اصلیت اور چال بازیاں سامنے نہیں آتی ہے جیسے:
( جب تک ہم سب بڑے ابا کی سر پرستی میں رہے کسی کی اصلیت کسی کا رنگ نہ کھلا لیکن جونہی ہمارا یونٹ علاحدہ ہوا اور نئی زندگی کے تقاضے ابھرے ہماری شخصیتوں کے تہ در تہ پردے کھلنے لگے۔۲۵ )
جوں ہی میر صاحب دنیا سے چل بسے گھر کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ۔ اس حادثے کو اگرچہ ان کا خاندان برداشت کرنے کی قوت کہیں سے اکھٹی کر لیتا لیکن فسادات نے ان کی رہی سہی ہمت پر کاری ضرب لگائی ۔
اصل میں مصنفہ نے اس ناولٹ میں ہجرت کے المیے سے پیدا شدہ مشکلات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ راوی کا سارا خاندان دادا کے گزرنے کے بعد ایک دوسرے سے علاحدہ ہو جاتا ہے۔ ابا انہیں لے کر لاہور میں رہائش پزیر ہو گئے ۔ وہاں جانے کے بعد خرم کے والد نہایت کوشاں رہے کہ ان کے بیٹے کو نوکری ملے لیکن انسان کی تربیت اور ماحول کا اثر جو اس کی شخصیت میں گھر کرتا ہے اُسی فلسفے کو مصنفہ نے اس ناول میں جگہ جگہ ابھارا ہے۔
اس تربیت اور ماحول کا اثر خرم کی شخصیت کے ذریعے دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی نوکری کی طرف مائل نہ ہونا اس بات کا عینی شاہد ہے کہ وہ بچپن سے تخیل کے عالم میں رہنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہ ان کی نیت کا کھوٹ نہ تھا کہ وہ کسی جگہ پابندی سے یا کسی کے دباؤ میں آکر کام نہ کرتے بلکہ انہیں اس سب میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ کتابوں کی دنیا میں کھوئے رہتے اور دوسری چیز جو بے حد پسند تھی وہ اندھیرا تھا۔
اس کہانی کے راوی کو بچپن سے جانوروں سے عشق ہوتا ہے۔ اس ناولٹ میں مصنفہ نے بڑے دلکش پیرائے میں شہد کی مکھیوں کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں جیسی سہولیات نا ہوتے ہوئے بھی کسی طرح مکھیاں اپنا کام بغیر کوتاہی ، بغیر جھگڑے کے بغیر عذر کے انجام دیتی ہیں، کس طرح وہ منتظم زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کے یہاں سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، جمہوریت وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر انسان کی بات کریں تو اس میں انانیت ہوتی ہے
اور وہ خود غرض ہوتا ہے جبکہ مکھیاں اس تصور سے نا آشنا ہو کر ذات الہی کے شکر میں اپنی زندگی بسر کرتی ہیں اور ایک ہی چھتے میں رہ رہی ہوتی ہیں جبکہ انسانوں کو صرف الگ الگ مکان اور الگ الگ زمینیں، الگ الگ جاگیریں درکار ہوتی ہیں۔نسوانی اور دیگر کرداروں کو پیش کرنے میں مصنفہ کو کمال حاصل ہے۔ انھیں ہر طرح کی زبان کو پیش کرنے کا ہنر اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا اور ان کے یہاں ایسے کردار ملتے ہیں جو قربانی دینے سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹتے ۔
ایسے ہی کرداروں میں شیریں کا کردار ہے جو خاندانی روایات کی خاطر اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی اپنی محبت قربان کرتی ہیں اور سمجھوتوں کے گار میں خود کو دھکیل دیتی ہیں ۔اس ناولٹ میں جو دیگر کردار استعمال ہوئے ہیں وہ یہ ہیں عذراء،اسماعیل ، چینی دانی، اصغری وغیرہ۔
اس ناولٹ میں بانو قدسیہ نے خرم کو ایک شوقیہ کردار کے طور پر پیش کیا ہے جس کی پرورش بڑے ناز ونغم سے ہوئی تھی۔ لیکن ان کے والد ان کی آرام طلبی کی عادت پر ہمیشہ انہیں کھری کھوٹی سُناتے ہیں۔ خرم کے والد کے نزدیک دولت ہی ساری خوشیوں کی وجہ تھی اور خرم جس لڑکی سے محبت کر بیٹھا تھا اس کے والد ٹھیکیدار کے نزدیک افسری ہی سب کچھ تھی لیکن خرم کا کردار ان سب سے مختلف ہے۔
وہ زندگی میں محبت کو تر جیح دیتا ہے۔ اس ناولٹ میں خرم کے ابا جان اور ٹھیکیدار کی شخصیت کی بات کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک پیسے سے بڑھ کر کوئی اور چیز تھی وہ دولت کو ہی ہر خوشی کا ذریعہ سمھتے تھے، اسی طرح ٹھیکیدار صاحب کی اگر بات کی جائے ان کی شخصیت بھی کسی حد تک خرم کے ابا جان سے میل کھاتی تھی کیونکہ وہ بھی تمام مسرتوں کا ذریعہ اچھی نوکری کو ہی قرار دیتے تھے۔
ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی کسی اچھے عہدے سے وابستہ لڑکے کا انتخاب کرنا چاہتے تھے۔ اگر چہ اس کی بیٹی کی خوشیاں خرم سے وابستہ تھیں لیکن ٹھیکیدار کو اپنی بیٹی کی خوشیوں سے بڑھ کر دنیا داری عزیز تھی ۔ علاوہ ازیں ان دونوں کرداروں کے علاوہ جس شخص کا کردار منفرد تھا وہ خرم تھے۔
ان کی شخصیت اگرچہ بےضر تھی لیکن بے کار۔ جہاں تک اس ناولٹ میں مصنفہ کے اسلوب کی بات کی جائے تو انہوں نے زبان و بیان کے حسین پھول اس ناولٹ میں بکھیرے ہیں، یعنی اس ناولٹ کا اسلوب علامتی ہے جو قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس ناولٹ میں بھی مصنفہ نے راجہ گدھ“ کی طرح علامتی تکنیک کو بروئے کار لایا ہے اور انسانوں اور شہد کی مکھیوں کی خوبیاں اور خامیاں واں ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ مثلا:
(مکھیاں شریف النفس ہوتی ہیں انہیں اپنے کام سے کام ہوتا ہے کسی کے پھٹے میں ٹانگ اڑانا ان کا شیوہ نہیں ۔۔۔۔۔ انسان انانیت کا مارا ہوا ہے کسی کے تجربے سے نہیں سیکھتا ۔۔۔مکھیاں ایسی بے و قوف نہیں ہیں ۔ ان کا ایک چھتہ دوسرے چھتے سے چھوٹا ہو تو ہو، مختلف کبھی نہیں ہوتا ۔ ۲۶)
ساتھ ہی ساتھ اس ناولٹ میں ادا کیے جانے والے مکالمے بھی منفرد اہمیت رکھتے ہیں یعنی مصنفہ نے کرداروں کی زبانی ایسے کلمات ادا کروائے ہیں جو روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً :
(شیریں متذبذب لہجے میں بولی ۔ بھلا میں کیا فیصلہ کر سکتی ہوں؟ کچھ ایسا کیجیے کہ آپ کے ابا جان اور میرے ابی دونوں مان جائیں ؟ یعنی ؟۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ طریق سمجھا نہیں؟” خرم بھائی نے طنز سے پوچھا ۔ وہ طریق تو میں خود بھی نہیں جانتی۔ لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ کچھ ایسی صورت بن جائے کہ دونوں خوش ہو جائیں ۲۷)
مناظر کی حسین تصویر کشی کرنے پر بھی مصنفہ کو گر حاصل ہے اور مصنفہ نے مکھیوں کے چھتے کی آرائش و زیبائش کو اس انداز کے تحت دکھایا ہے کہ قاری ان مناظر سے ایسے آگاہ ہو جاتا ہے جیسے اس نے ان مناظر کو حقیقت میں دیکھ لیا۔ ساتھ ہی ساتھ مصنفہ دوسرے مناظر کی بھی حسین جھلک پیش کرتی ہیں۔ جیسے:(وہ نہایت ستھری اور دھلی ہوئی صبح تھی۔ نیلگوں آسمان کی پنہائیاں شفاف اور پر سکون تھیں۔
یورپ کی کھاٹی میں سے ممیاتی بکریوں کی صدا ہوا کے شانوں پر لدی ہمارے گھر تک پہنچ رہی تھی۔ فضا میں خنکی اور حدت کا احساس ساتھ ساتھ لہرا رہا تھا ۔ میرے اخروٹ کے درخت پر بڑی رونقیں تھیں ۔ مکھیاں بہار کا نغمہ الا پتی وادی کے طواف کو آجا رہی تھیں ۔
میری کھڑکی میں لہراتی ہوئی پیل میں گلابی کلیاں سر نکال رہی تھیں۔ میں اس رت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور گھاٹی کی طرف اُتر گیا۔ ۲۸)اس ناولٹ میں مصنفہ نے زندگی کی حقیقت کو اُجاگر کیا ہے کہ انسان لوگوں کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا انسان کتنا ہی تنہائی پسند کیوں نہ ہو لیکن اُسے سماج اور ماحول کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس کا دل اگر کبھی خلوت میں رہنا چاہتا ہے لیکن اُس کے وجود کا حصہ جلوت بھی ہے۔ ناول کے آخری حصے میں مصنفہ نے محبت میں خرم اور شیریں کی قربانی کو پیش کیا ہے۔ دراصل مصنفہ اس ناولٹ میں یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ قربانی کا جذبہ انسان کی سرشت میں داخل ہے۔
روز اول سے ہی انسان میں مالک کائنات نے یہ جذبہ رکھا ہے اور اسی جذبے سے کئی لوگوں کی زندگی سنورتی ہیں اور کئی لوگوں کی اجیرن بن جاتی ہے۔ اگر چہ یہ جذبہ خدا نے انسان میں نہ رکھا ہوتا تو شاید انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتا اور کوئی بھی راستہ اختیار کرتا۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بانو قدسیہ کے اس ناولٹ میں کافی رنگارنگی موجود ہے، اس ناول کے مکالمے ، کردار نگاری، انداز بیان ، زبان سب ایک کل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس ناول کے چند کردار روایتی ادب سے انحراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ اس ناول میں جو معاشرہ پیش کیا گیا ہے وہ تہذیبی بحران کا شکار ہے لیکن پھر بھی یہ ناولٹ ایک حسین ادب پارہ کہلانے کے قابل ہے۔ علاوہ ازیں مصنفہ نے اس ناولٹ میں کئی طبقوں کی زندگی کوسر فہرست لا کر اس ناولٹ کا حسن دوبالا کیا ہے ۔
ماخذ: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں