افسانہ آنندی تنقیدی جائزہ (آنندی ایک نئی تعبیر)

افسانہ آنندی تنقیدی جائزہ

غلام عباس کا یہ افسانہ آنندی لازوال حیثیت کا حامل ہے، ایک سنگین سماجی صداقت کی روداد، اس کی تمام جزئیات اور متعلقات کے ساتھ نہایت اعتدال اور توازن سے بیان کی گئی ہے۔ اس دُنیا کے چار بڑے کردار ہیں، ان میں ایک طوائف ہے اسے وابستہ افراد سازندے وغیرہ۔ دوسرے وہ شرفاء جو اس ادارے کے محافظ ہیں۔ تیسرے وہ خوانچے والے ، ٹھلے والے جن کا دھندے ظوئف سے مشروط ہیں۔

ماور چوتھے وہ مصلحین اخلاق اور قراردادیں کرنے والے با اثر افراد جن کی سوچ میں سطحیت اور عمل میں ریا کاری اورگرم جوشی ہے۔۔۔ غلام عباس نے چاروں کرداروں کے گرد پھیلی ہوئی اس دنیا کو نہایت انتہاک اور دیدہ ریزی سے اپنی کہانی میں سمیٹ لیا ہے۔ اس کہانی کی اشاعت کے بارے میں مختلف محققین کی رائے مختلف ہے جو ذیل میں دی جارہی ہیں۔1939ء میں انہوں نے مشہور افسانے آئندی اور اندھیرے میں لکھے ۔“

افسانوں کے مجموعہ "آنندی” میں افسانہ آنندی کے آخری میں لکھا گیا سن تصنیف ) انتظار حسین نے آنندی“ کے سن تصنیف کے بارے میں لکھا ہے: آنندی اردو افسانے میں حقیقت نگاری کا نقطہ عروج ہے۔ یہ افسانہ 1932 ء میں لکھا گیا ۔ صہبا لکھنوی نے اپنے ایک مضمون "غلام عباس” جو افکار کراچی کے اکتوبر 1981ء کے شمارہ میں چھپا آنندی کے سن اشاعت کے بارے میں یوں لکھا ہے :

"1939 ء میں انہوں نے اپنا مشہور ترین افسانہ آئندی لکھا جو فیض احمد فیض کی ادارت میں شائع ہونے والے مقبول ادبی ماہنامے ادب لطیف“ کے افسانہ نمبر 1941 ء میں پہلی بار شائع ہوا ۔ غلام عباس ایک مطالعہ میں شہزاد منظر غلام عباس سے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھتے ہیں: میرا پہلا افسانہ، جسے اچھا افسانہ کہنا چاہیے تھا ۔

1947 ء میں میرا دہلی میں قیام تھا، وہاں مجھے بہت اچھا ماحول ملاخ وہاں میں نے "آنندی” کے بارے میں سب کچھ مشاہدہ کیا ، میں نے اس افسانے میں 1937ء کا پس منظر پیش کیا لیکن یہ افسانہ 1947 ء میں لکھا گیا۔ 1945ء میں محمد حسن عسکری کا ایک مضمون رسالہ انصاری میں چھپا جس کا عنوان تھا "کچھ آنندی کے بارے میں” اس میں محمد حسن عسکری نے لکھا کہ آنندی 1941ء میں ادب لطیف میں چھپ چکا تھا۔

1946ء میں غلام عباس نے آنندی نامی ایک ڈرامہ لکھا جو آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوا۔ایک محقق نے ثابت کیا کہ غلام عباس نے افسانوی مجموعہ ” آنندی میں 1939 ء سے پہلے کے کسی افسانے کو شامل نہیں کا تھا۔ پھر اگر آنندی 1940 ء کے بعد لکھا جاتا تو مجموعہ آنندی کے سرورق پر 1939ء کا ذکر اتناضروری نہ تھا،

بلکہ 1940 بھی کیا جا سکتا تھا یعنی انندی سال تصنیف 1939ء ہونے کی وجہ سے مجموعہ میں 1939ء کا سن دیا گیا ہوگا۔ فاضل محقق اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ غلام عباس کا افسانہ آئندی 1940ء سے قبل یعنی 1939ء میں لکھا گیا۔ آنندی“ کا قلمی مسودہ اپنی اصلی حالت میں آصف فرخی کے پاس کراچی میں محفوظ ہے،

مگر اس مسودہ پر سن تصنیف درج نہیں ۔ جس سے اس کی تصنیف کا سال متعین کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اس افسانے کو 1962ء میں ایک ہندوستانی نژاد مسلمان نے چیکوسلواکیہ کی زبان میں ترجمہ کیا اور اسے بین الاقوامی مقابلے میں اسے دنیا کا بہترین افسانہ قرار دے کر پہلا انعام دیا گیا تو بعض غیر ذمہ دار افراد نے غلام عباس کا مقام اور مرتبہ کم کرنے کے لئے آنندی کے بارے میں مشہور کر دیا

کہ آنندی“ ایک روسی افسانے سے ماخوذ یا ترجمہ ہے یا اناطول فرانس کے افسانے سے مماثلت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں مشہور ناول نگار اور محقق احسن فاروقی نے کہا: غلام عباس کا یہ افسانہ جب پہلی بار شائع ہوا تھا تو اس کے نیچے ” ما خوذ لکھا تھا اور یہ کہ یہ افسانہ ایک روسی افسانہ نگار کے افسانے کا چربہ ہے۔

“اس بیان کا یہ اثر ہوا کہ اکثر لوگ ایک مدت تک اسے ترجمہ یا ماخوذ ہی سمجھتے رہے، مگر جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ ادب لطیف کے 1942ء کے شمارہ نمبر 49 میں جب یہ افسانہ چھپا تھا تو اس کے آخر میں ترجمہ ” یا ” ماخوذ” کے الفاظ نہیں تھے۔ دراصل اس افسانے کا پس منظر غلام عباس نے ” آنندی کا پس منظر نامی مضمون میں لکھا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں : اس افسانے کا خیال مجھے کب اور کس طرح سوجھا۔ اس کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

یہ افسانہ میں نے 1939ء میں دوسری عالمگیر جنگ شروع ہونے سے کچھ ہی ہفتے پہلے لکھا تھا۔ ان دنوں کے رسالے ” آواز” کا ایڈیٹر تھا۔ اس زمانے میں دلی کا مشہور بازار چاوڑی طوائف سے خالی کرایا گیا تھا اور انہیں رہنے کو برن بچین روڈ پر جگہ دی گئی تھی۔

یہ سڑک پرانے شہر کے باہر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔ ریلوے لائن اور سڑک کے درمیان لوہے کا ایک اونچا کٹہرا بنا تھا۔ اس سڑک پر دن رات تانگوں اور موٹروں کی آمد ورفت تو خوب رہتی تھی، مگر یہ سڑک تھی غیر آباد یعنی اس پر رہائشی مکان یا دکانیں وغیرہ نہ تھیں. بس سڑک کے دونوں طرف خالی زمین پڑی تھی ۔

غالباً اس کی ویرانی ہی کی وجہ سے دلی کی میونسپل کمیٹی نے اسے شرفائے شہر کے لئے نسبتا کم خلل رساں سمجھ کر طوائفوں کو الاٹ کر دیا تھا تا کہ یہاں مکان بنوا کر اپنا دھندا پھر سے شروع کر سکیں ۔“

اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کا دفتر پرانی دلی کی علی پور روڈ پر واقع تھا اور گھر نئی دہلی کی ایک لین یعنی مین شہر کے ایک سرے پر رہتا تھا اور دفتر اس دوسرے پر تھا۔ چنانچہ مجھے دفتر آتے جاتے اکثر اس برن بچین روڈ سے گزرنا پڑتا تھا۔

اس طرح علاقے کی تعمیری سرگرمیوں سرگرمیوں پر خواہی نخوای میری نظر پڑتی رہتی تھی۔ "میں نے دیکھا کہ کئی ہفتوں تک تو یہ جگہ ویسی کی ویسی ویران ہی پڑی رہی،

مگر پھر رفتہ رفتہ اس میں نشوونما کے آثار پیدا ہونے شروع ہو گئے اور راج مزدور، نقشہ نویس ٹھیکیدار، انجینئر، منشی ، متصدی چلتے پھرتے نظر آنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جوش تعمیر جنوں کی حد تک پہنچ گیا اور دن کے علاوہ رات بھر گیسوں کی روشنی میں کام ہونے لگا اور یوں چند ہی مہینوں میں کئی مکان بن کر تیار ہو گئے۔”

یہ تھا میرا وہ مشاہدہ جو آنندی کی بنیاد بنا۔ایک فنکار جب زندگی سے مواد حاصل کرتا ہے تو پھر وہ اس مواد کو اپنی تخلیق میں من وعن استعمال نہیں کرتا ، بلکہ اپنے اسلوب اور تخیل کے بل پر اس میں کمی بیشی کر کے اسے نئے انداز میں پیش کرتا ہے۔ چنانچہ انداز فکر اور تخیل جس قدر واضح اور مکمل ہوگا، تخلیق اتنی ہی موثر اور خوبصورت ہوگی ۔

غلام عباس کو بھی جو مواد اس کے مشاہدے کی بدولت زندگی سے میسر آیا اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آئنندی تخلیق ہوا۔آنندی“ ہی کے بارے میں غلام عباس اپنے اس مضمون میں آگے چل کر لکھتے ہیں :

اس کہانی میں میں نے ایک نیا تجربہ کرنے کی کوشش بھی کی، یعنی انسانوں کے روایتی کرداروں سے اسے یکسر عاری رکھا اور پورے معاشرے کو اس کے واحد کردار کے طور پر استعمال کیا گیا، بھلا جس کہانی میں کردار نہ ہوں، کچھ واقعہ نہ ہو اور اگر ہو تو نہ ہونے کے برابر ہو، پڑھنے والے کی دلچسپی کیسے قائم رکھی جاسکتی ہے۔

"یہ خاصا مشکل کام تھا اور اکثر خدشہ ہوتا تھا کہ کہیں پڑھنے والے تفصیلات سے اکتا کر کہانی کو درمیان میں نہ چھوڑ دے، چنانچہ اس کے سد باب کے لئے بڑے جتن کرنے پڑے۔ میں نے کہیں تو اس کی نثر میں ایک قسم کی ہلکی غنائیت پیدا کرنے کی کوشش کی اور کہیں نثری نظم (Prose Poem) کا رنگ دیا۔ انسانوں کے مختلف طبقوں ، ان کی عادتوں، خصلتوں، زندگی کی چھوٹی چھوٹی ہثاتوں کو بڑی رنگ آمیزی سے پیش کیا، کہیں رنگیں بیانی ، کہیں زبان کا چٹخارہ۔

اس بہلاوے پھلاوے سے میرا مقصد یہ تھا کہ قاری کو جیسے تیسے کہانی کے انجام تک پہنچادیا جائے ، اگر میں اس میں کامیاب ہوں گا تو پھر مجھے کچھ فکر نہ ہوگی، کیونہ کہانی کی آخری سطور پڑھ لینے کے بعد قاری پر یکبارگی کی غرض وغایت ایک (استعجاب ) کی صورت میں واقع ہو جائے گی ۔”

آنندی میں ملک و قوم کے چند نام نہاد خیر خواہ اور دردمند اپنے شہر سے بدی یعنی زنان بازاری کو نکال کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کے لئے اس کا خاتمہ کر دیا ہے، مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرنے پاتا کہ بدی ان کے پڑوس ہی میں ایک نئے اور زیادہ دل آویز روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے اور شہر کے نام نہاد پاک بازاروں کے دلوں کو پہلے سے بھی زیادہ دلفریب انداز سے لبھاتی اور اپنی طرف کهیچتی ہے۔آنندی“ کے بارے میں محمد حسن عسکری لکھتے ہیں :

آنندی میں ایک فرد کیا پوری جماعت نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ شہر آنندی کی تعمیر اور اس کی آبادی اور رونق میں درجہ بدرجہ اضافی انسانی حماقت کے قصر کی تعمیر ہے۔ آنندی میں جونئی اینٹ دوسری اینٹ پر رکھی جاتی ہے، وہ اس قصر کو بلند تر اور مستحکم تر بناتی ہے۔ آنندی یوں دیکھنے میں تو شہر بسنے کی کہانی ہے اور بڑے مزے لے لے کر بیان کی گئی ہے،

مگر در اصل یہ چٹخارہ ہی ایک دباؤ باز ہر خند ہے، جسے انسانی حماقت کے نئے سے نئے ثبوت مہیا کرنے میں مصنف کو لطف آرہا ہو۔” ڈاکٹر انوار احمد کے بقول :افسانہ ” آنندی ایک لازوال حیثیت کا حامل افسانہ ہے۔ ایک سنگین سماجی صداقت کی روداد ہے، اس کی جزئیات اور متعلقات نہایت دھیرج اور توازن کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔”

اس افسانے میں مرکزی کردار آنندی شہر ہے اور ضمنی کرداروں میں طوائف اور اس کے پیشے سے وابستہ افراد مثلاً دلال اور سازندے۔ دوسرے نمبر پر وہ شرفاء ہیں جن کے دم قدم سے ان کے کوٹھے آباد ہیں اور اس ادارہ کو تحفظ مہیا کرتے ہیں ۔

تیسرے نمبر اس بازار میں اپنی روزی کمانے والے دکاندار ، ٹیلے والے، پھلیرے اور پنواڑی وغیرہ اور چوتھے وہ لوگ ہیں جو نام نہاد مصلحین اور خدائی فوجدار ہیں۔ غلام عباس نے ان سب کرداوں کی قلیل نفسی بڑی دیدہ ریزی اور مہارت سے کہانی میں سموئیل ہے۔کہانی کا پلاٹ مربوط اور منظم ہے اور اسے بڑی مہارت سے تیار کیاگیا ہے۔

کہانی کا آغاز مختصر ہونے کے باوجود قاری کے ذہن میں پس منظر تیار کرتا ہے۔ بلدیہ کا اجلاس اور اس میں مختلف مقرروں کی تقاریر کی تفصیل اس منافقت کی نمائندگی کرتی ہے جو ہندوستان کے معاشرے کی عمومی خصوصیت ہے۔ آنندی شر کی تعمیر اور آبادی کے مراحل کا ذکر جزئیات نگاری اور کردار نگاری کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

تعمیراتی مراحل اور لمحہ بہ لمحہ مختلف پیشہ وروں کی شہر میں آمد اور آباد کاری کے مناظر کی جزئیات سے لطف پیدا کیا گیا ہے۔

افسانے کو انجام تک پہنچانے کے لئے مصنف دلچسپ مناظر پیش کرتے ہیں اور ایسی فضا پیدا کر کے ان لوگوں کو شہر میں مہیا کی جانے والی سہولتوں کی تفصیل کے ساتھ قدیم شہر آنندی“ کا تذکرہ کر کے قاری کو ایک مؤثر اور منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔

افتتاحی منظر ہی کو اختتامی منظر کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ دونوں مناظر کے درمیان میں برس کا طویل عرصہ حاصل ہے۔

گویا زمانی تبدیلی کے باوجود مکانی اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ زمانی تبدیلی کے باوجود آنندی“ ایک نیا شہر اور نیا معاشرہ وجود پذیر ہو جاتا ہے، جس میں پرانے معاشرے کے تمام انداز و اطوار موجود ہیں۔

اس افسانے میں روایتی انداز بقول ناقدین کے کردار نگاری مفقود ہے، البتہ منظر نگاری ایسی جاندار اور مکمل ہے کہ تمام تر جزئیات مقامی ماحول میں قاری کے لطف کا باعث بنتی ہے ۔ غلام عباس کا اسلوب افسانہ نگاری،

سادگی اور سلاست کی اہمیت کا شعور ہے اور یہ شعور اُنہیں مولوی ممتاز علی کی رہنمائی میں رسالہ ” پھول” اور "تہذیب نسواں "کے ماحول کی دین ہے۔مکالمہ نگاری میں وہ تشبیہ اور استعاروں کے خوب صورت اور ماہرانہ استعمال سے اپنی مہارت نامہ کا مکمل ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

یہ افسانہ در حقیقت اپنے مصنف کی پہچان اور افسانے کی تاریخ میں ان کے مرتبہ ومقام کی تعیین کا سبب ثابت ہوتا ہے، ان کے اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ اگر غلام عباس صرف ” آنندی“ ہی لکھتے تو بھی ان کا نام اُردو کے افسانوی ادب میں ان کی حیات جاوداں کا کافی وشافی سامان ہوتا ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ غلام عباس نے کم از کم پانچ سال کا عرصہ صرف ” آنندی پر اکتفا کئے رکھا۔

ڈاکٹر اور نگ زیب عالمگیر اس افسانے کے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں۔یہ افسانہ غیر معمولی شہرت کا حامل اور مقبولیت کا مالک ہے،

جس کی بہت زیادہ تحسین و ستائش کی گئی ہے، لیکن آبادی کے آباد ہونے کے عمل کی تکمیل اور اہل شہر کو تمام ضروری سہولیات جس قدر جلدی اور تیزی سے ملتی دکھائی گئی ہیں وہ مبالغہ ہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ آبادی کے مکینوں کو تمام روز مرہ سرکاری سہولیات ملتے ملتے عرصہ گزر جاتا ہے، لیکن یہاں میں سال کا عرصہ دکھایا گیا ہے، جو کہ بہت ہی قلیل عرصہ ہے، اس لئے کہ بستی بستنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے ۔܀܀܀

ماخذ: افسانوی نثر اور ڈرامہ جمیل احمد انجم

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں