موضوعات کی فہرست
خاندانی پس منظر
احسان دانش کا اصل نام احسان الحق ہے۔ جو بعد میں ان کے والد قاضی دانش علی کی مناسبت سے احسان بن دانش اور بالآخر احسان دانش ہو گیا۔ ان کے والد ماجد قاضی دانش علی قصبہ باغپت ضلع میرٹھ، اتر پردیش سے تعلق رکھتے تھے۔ باغپت دریائے جمنا کے ساحل پر آباد ہے۔ قاضی دانش علی کے پاس اچھی خاصی جائداد تھی مگر شرافت ، سادہ لوحی اور کم علمی کے باعث سارا سرمایہ اقربا کے پاس پہنچ گیا اور قاضی دانش علی مفلس اور قلاش ہو گئے ۔ احسان دانش کی والدہ صاحبہ کاندھلہ کی تھیں ۔ جب حالات بہت خراب ہوئے تو قاضی دانش علی ہجرت کر کے کاندھلہ چلے گئے ۔ کاندھلہ ضلع مظفر نگر، اتر پردیش کا مشہور قصبہ ہے جو اس شاہراہ پر واقع ہے جو سہارنپور کو دہلی سے ملاتی ہے۔ اسی طرح باغپت، بڑوت اور کاندھلہ سے گزرتی ہوئی ایک ریلوے لائن بھی سہارنپور جاتی ہے ۔ کاندھلہ، شاہدرہ سہارنپور ریلوے پر واقع ایک با رونق قصبہ ہے۔
کاندھلہ میں ہی نانا ابو شاہ صاحب کی پرانی حویلی میں 1914 میں احسان الحق کی پیدائش ہوئی اور یہیں انھوں نے پرورش پائی ۔ احسان دانش کے نانا ایک معمولی سپاہی تھے اور جس وقت قاضی دانش علی نے باغپت سے کاندھلہ سکونت اختیار کی ابوشاہ صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ کاندھلہ اور اپنے محلے ‘مولانان’ کے دلفریب مناظر اور ان سے اپنے والہانہ عشق کا ذکر کرتے ہوئے احسان دانش لکھتے ہیں: کاندھلہ ضلع مظفر نگر یوپی میں شاہدرہ سہارنپور ریلوے پر ایک باروفق قصبہ ہے جس کے مشرق میں نہر چمن شرقی اور اس کے کنارے کنارے باغوں اور کوٹھیوں کا پر فضا منظر ہے۔ اگر چہ قصبے کے چاروں طرف گنجان باغوں کے بڑے بڑے قطعات چل کر محلوں تک آگئے ہیں لیکن نہر کے گل بار کناروں کا یہ منظر ہر وقت رہٹ چلنے کے باعث گردو نواح کے دوسرے مناظر سے نسبتاً شاداب اور روح افزا رہتا ہے۔ مگر شام ہوتے جب آسمان کی نیلی آنکھوں میں سرسوں پھولنے لگتی ہے اس وقت یہ خطہ اور بھی تیکھا ہو جاتا ہے۔ مرے محلے مولانان سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر جنوب میں شاہی وقتوں کا ایک پختہ تالاب ہے جس کے مشرقی کنارے پر پرانی اور مختصر سی مسجد ، مغرب میں نہانے کا زینے دار گھاٹ، شمال میں ایک عالی شان مندر اور پجاریوں کے رہنے کے لیے دو منزلہ عمارت ہے جنوب میں مویشیوں کے پانی پینے کے لیے کچا اور ڈھلوان گھاٹ اور اس گئو گھاٹ کی پشت پر دور تک ٹیلے کے پچھے سر سبز میدان چلا گیا ہے۔ میدانی کھیتوں کی کور سے ہی سید والا باغ شروع ہو جاتا ہے۔۔ مجھے اس تالاب ، مندر مسجد اور گرد و نواح کے تنہا مناظر سے نہ جانے کیوں محبت کی تھی۔(1)
احسان دانش کے خاندان کے متعلق محمد وارث کامل رقم طراز ہیں: ‘احسان صاحب کا شجرہ نسب شیخ حسن زنجانی سے ملتا ہے اور شیخ کا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق تک منتہی ہوتا ہے۔ اس نسب اور اس نسبت سے احسان صاحب شیخ صدیقی ہوتے ہیں۔ خاندان قضاۃ جس کی زنجانی شاخیں یوپی کے مغربی اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 933 ھ سے ہندوستان کو اپنے علوم وفنون سے فیض یاب کر رہا ہے۔ وہ خاندان ہے جس کے ایک فرد خواجہ شہاب الدین سہروردی بانی سلسلہ سہروردیہ اور دوسرے وہ امام سعید زنجانی ہیں جن کے حضور مشہور محدث خطیب بغدادی نے بھی زانوئے تلمذ کیے۔۔۔۔۔۔
احسان دانش کے معاشی حالات
احسان دانش سے بڑی ایک بہن بھی تھی۔ چار افراد کے اس کتبہ کی پرورش کے لے دانش کی والدہ بھی محنت کرتی تھیں۔ وہ محلے کی خواتین کے کپڑے سیتی ( اس زمانے میں کپڑے ہاتھ سے سیے جاتے تھے مشین سے نہیں ) ساتھ ہی محلے سے پیسنے کے لیے اناج منگا لیا کرتی ۔ وہ چکی کی مشقت اور ہاتھ کی سلائی سے قاضی دانش علی کا ساتھ دیتیں تاکہ زندگی کی رہ گزر کچھ آسان ہو سکے۔ اس کے باوجود اکثر احسان دانش کے گھر سالن نہیں پکتا کبھی سادے پانی کے ساتھ تو کبھی نمک پانی یا شکر پانی سے روٹی بھگو کر کھائی جاتی ۔ احسان دانش نے اپنی مفلسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:”گھر میں لکڑی لو ہے یا جست کا کوئی بکس نہ تھا۔ نئے اور دھلے ہوئے کپڑے ایک مٹکے میں بھرے رہتے اور عید تہوار کو میری والدہ وہی ملے ولے کپڑے سلوٹیں کھول کھول کر مجھے پہنایا کرتیں’اسی ناسازگار حالات میں احسان دانش نے پرورش پائی ۔احسان دانش کو کتابیں پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ یہ شوق انھیں والد قاضی دانش علی سے ورثے میں ملا تھا۔ دانش علی خود پڑھے لکھے نہیں تھے۔ مگر تمام دن کی مزدوری کے بعد شام کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ احسان دانش سے کتابیں پڑھواتے ۔ ان کتابوں میں فسانہ عجائب، آرائش محفل ، قصه ممتاز ، الف لیلہ اور فسانہ آزاد اور منظوم کتب میں مثنوی میر حسن ٹل ومن، دیوان میر تقی میر، دیوان نظیر اکبر آبادی اور کلام انیس شامل تھی۔ یہ تمام کتا ہیں احسان دانش کے استاد قاضی محمد ذکی کے کتب خانے سے آتی تھیں ۔ اس طرح عالم طفلی سے ہی احسان دانش کو کتابیں پڑھنے کی عادت پڑ چکی تھی جو وقت کے ساتھ پروان چڑھتی رہی اور آخر کار جنون کی سرحدوں کو چھونے لگی۔ ملازمت کے بعد جو بھی وقت ملتا وہ کتب بینی میں صرف ہوتا۔ جس سے ان کے مطالعہ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ زندگی کے مصائب اور مشکلات میں یہ کتا بیں ہی ان رفیق اور مشعل راہ تھیں۔ چونکہ قاضی دانش علی با ذوق انسان تھے۔ انھیں بھی بہت سے قصے اور اشعار یاد تھے۔ احسان دانش فرماتے ہیں: ‘رات کو وہ ( قاضی دانش علی ) مجھے کہانیاں سنایا کرتے ، انھیں حاتم طائی ، الف لیلہ ، فسانہ عجائب اور نہ جانے کون کون سی کتا بیں از بر تھیں ۔ یہی نہیں فارس کی بیسوں غزلیں معانی اور مطالب سمیت ان کے حافظے میں محفوظ تھیں ۔’
احسان دانش کی خانگی زندگی
احسان دانش کی شادی کم سنی میں ہی ہوگئی تھی ( اس وقت ان کی عمر غالباً تیرہ چودہ سال رہی ہوگی ) ۔ ان کا شمعی نامی ایک لڑکی سے معاشقہ بھی رہا۔ شمعی ایک طوائف کی لڑکی تھی جسے رقص و نغمہ میں عبور حاصل تھا۔ اس کے علاوہ وہ دست شناس اور قیافہ شناس ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتی تھیں۔ اسے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور وہ دوسرے علوم پر بھی دسترس رکھتی تھی ۔ غالباََ انھیں خصوصیات کی بنا پر احسان دانش شمعی کی طرف راغب ہوئے ۔ جہان دانش میں شمعی کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ شمعی کی خوبصورتی سے متعلق احسان دانش فرماتے ہیں:’ وہ مجھ سے قد میں تو ذرا بڑی تھی لیکن خوش رنگ شرقی آنکھیں، سنتواں ناک، پیاز کے بکھار کی طرح ابرو اور چھریرا بدن ، جب وہ بولتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ ایک غیر مرئی لذت کانوں سے دل پر چھن رہے ہے ۔ ‘یہ معاشقہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا جب احسان دانش لاہور چلے گئے تو یہ معاشقہ بھی تقریباً ختم ہو گیا۔ صرف کچھ دنوں تک خط و کتابت ہوئی اور شمعی کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ کچھ سالوں تک کاندھلہ اور آس پاس کے علاقہ میں مزدوری کرنے کے باوجود جب احسان دانش کی معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو انھوں نے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔امیدوں کے سہارے احسان دانش لاہور پہنچے تو وہاں بھی انھیں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور کے محلہ ‘پیسہ اخبار’ میں صدیق کے ساتھ احسان دانش نے رہائش اختیار کی اور مختلف ملازمت کی۔ لاہور میں انھوں نے سب سے پہلا کام اینٹیں ڈھونے کا کیا ( جلدی ہی ایک اچھے معمار تسلیم کیے جانے لگے تھے ) ۔ اس کے بعد سراجی ، نامہ نویسی اور کتب فروشی کی ۔ دراصل انھوں نے اپنے ابتدائی اشعار کو جسے وہ خود تک بندی کا نام دیتے ہیں ، اپنے ساتھی صدیق کے کہنے پر اور انھیں کی مدد سے شائع کر کے فروخت کیا۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میں مزدوری کی اور دوسری مزدوریاں بھی کرتے رہے۔ اس میں محنت بیچنے کے ساتھ ہی فن بیچنا بھی شامل رہا۔ انھوں نے کسی پبلشر کے لیے دو روپے فن نظم اور غزل کہی ۔ یہ نظمیں اور غزلیں احسان دانش کے نام سے شائع نہیں ہوئیں ۔ غالباً وہ بنا کسی شاعر کے نام یا پھر کسی اور نام سے شائع ہوئیں ۔ اس سلسلے میں مزید کوئی تفصیل نہیں ملتی۔احسان دانش کب لاہور گئے اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ درد زندگی کے آخر میں اختر حسین خاں تسکین بریلوی کی ایک تحریر حالات احسان بن دانش کے عنوان سے شامل ہے جس میں احسان دانش کے حالات کا ایک مختصر مگر جامع خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدائی حالات کے بعد شعر و شاعری کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:اکثر رسائل میں اپ کا نام نظر آتا تھا ۔ یہ واقعات 1929۔30 کے ہیں ۔